پاکستان کے فوجی چھاؤنی والے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کی آخری پناہ گاہ کو مسمار کرنے کا کام پیر کو مکمل کرلیا گیا۔
یہ قلعہ نما تین منزلہ مکان فوج کی بنیادی تربیت گاہ ’پاکستان ملٹری اکیڈمی‘ کاکول سے بمشکل ایک کلومیٹر دوربلال ٹاؤن نامی رہائشی علاقے میں تعمیر کیا گیا تھا اور باور کیا جاتا ہے کہ بن لادن 2005ء میں اس گھر میں منتقل ہوا تھا۔
امریکی کمانڈوز کی ایک ٹیم نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے افغانستان سے پرواز کرتے ہوئے دو مئی کو ایبٹ آباد پہنچ کر رات کی تاریکی میں القاعدہ کے مفرور رہنما کے خلاف کارروائی کر کے اُسے ہلاک کرنے کے بعد اُس کی لاش کو سمندر برد کر دیا تھا۔
پاکستانی حکام نے بھاری مشینوں کی مدد سے مکان کو مسمار کرنے کی کارروائی ہفتہ کی شب سرچ لائٹس لگا کر شروع کی تھی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں یا کسی غیر متعلقہ شخص کو اس مقام کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
خفیہ امریکی آپریشن سے لاعلمی اور طویل عرصے تک بن لادن کی ایبٹ آباد جیسے حساس علاقے میں موجودگی دونوں ہی پاکستانی فوج کے لیے خفت کا باعث بنے۔ لیکن امریکی رہنماؤں کے بقول اُنھیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اعلٰی پاکستانی حکام القاعدہ کے رہنما کی پناہ گاہ سے باخبر تھے۔
امریکی آپریشن کے بعد کسی مرحلے پر بھی پاکستانی حکام نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بن لادن کے گھر کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی التبہ ابتدائی ایام کے دوران اس کی بیرونی دیواروں تک صحافیوں کو جانے کی اجازت تھی مگر بعد میں اُس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
پاکستانی حکام نے اس مکان کو منہدم کرنے کی وجہ نہیں بتائی ہے۔ اس گھر کا مالک بن لادن کا پیغام رساں تھا جو باور کیا جاتا ہے کہ امریکی کارروائی میں بن لادن کے ساتھ مارا گیا تھا۔
امریکی کمانڈوز کی واپسی کے بعد پاکستانی حکام نے گھر میں داخل ہو کر بن لادن کی تین بیویوں اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا جن میں سے ایک نے تصدیق کی تھی کہ اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے بعد حملہ آور امریکی اُس کی لاش کو اپنے ساتھ لے گئے۔