پاکستان نے اُسامہ بن لادن کی بیواؤں اور بچوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے اُنھیں متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں دے دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے اس اقدام کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے سربراہ کے خاندان کے افراد غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کے بعد حکام کو بتائے بغیر ملک میں رہائش پذیر تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ مقدمے میں اُسامہ بن لادن کی بیواؤں کے خلاف لگائی جانے والی دفعات کا تعلق دھوکا دہی، جعل سازی اور غیر ملکیوں سے متعلق پاکستانی قانون کی خلاف ورزی سے ہے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ ایبٹ آباد میں بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن اور دیگر معاملات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی ہدایت پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
’’تین روز قبل اُنھیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس وقت وہ عدالتی ریمانڈ میں ہیں اور ملکی قوانین کے عین مطابق اُنھیں پانچ بیڈ رومز کے جس گھر میں رکھا گیا ہے اُسے عارضی جیل قرار دے دیا گیا تاکہ خواتین کا تقدس بحال رہے۔‘‘
رحمٰن ملک نے بن لادن کے خاندان کے افراد کی تعداد یا پھر اُس مقام کا ذکر کرنے سے گریز کیا جہاں اُنھیں حراست میں رکھا گیا ہے۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ زیرِ حراست افراد میں صرف اُن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جو بالغ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ بن لادن کے خاندان کے ممبران کو وکیل رکھنے اور عدالت میں اپنا دفاع کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔
ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال دو مئی کو ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے امریکی فوجی القاعدہ کے مفرور لیڈر کو ہلاک کرنے کے بعد اُس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے تھے لیکن خاندان کے دیگر افراد کو وہیں چھوڑ گئے جن میں بن لادن کی تین بیوائیں اور 10 بچے شامل ہیں۔
آپریشن کے بعد پاکستانی حکام نے ایبٹ آباد میں بلال ٹاؤن کے رہائشی علاقے میں تین منزلہ مکان کو قبضے میں لے کر بن لادن کے خاندان کے ارکان کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔