پاکستان اور چین کے درمیان آزادانہ تجارت کا دوسرا معاہدہ طے پاگیا ہے جس پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم عمران خان اور لی کے چیانگ کی موجودگی میں دستخط کئے گئے۔
پاکستان کا ماننا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کی برامدات کو چینی منڈیوں میں فروغ ملے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کے عدم توازن میں کمی لائی جا سکے گی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چینی مصنوعات کا درآمدی حجم تقریباً 12 ارب ڈالر ہے جبکہ چین کے لیے پاکستانی برآمدی اشیا کا حجم صرف ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
واضح رہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان پہلا آزاد تجارت کا معاہدہ دو ہزار چھ میں ہوا تھا جس کا اطلاق 2007 سے شروع ہوا۔ تاہم پاکستان میں ناقدین کا خیال ہے کہ اس پہلے معاہدے سے پاکستان کی صنعت کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوا۔
پاکستان نے چین سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ چین اس کے برآمدی حجم میں اضافے کے لیے اپنے ہاں سازگار ماحول پیدا کرے تاکہ پاکستان کی مصنوعات خصوصاً اشیائے خوردنی کی چین میں نئی منڈیاں بن سکیں۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت میں پاکستان کے خسارے میں مسلسل اضافے کے بعد بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان یہ دوسرا تجارتی معاہدہ طے پایا ہے۔
آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کے بعد بیجنگ میں چینی اور پاکستانی سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں اپنی برآمدات پر زیادہ توجہ نہیں دی تاہم اب ہم اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے نہ صرف برآمد کنندگان کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں بلکہ چینی سرمایہ کاروں کو بھی سہولتیں فراہم کریں گے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق چینی وزیر اعظم لی کے چیانگ نے عمران خان سے ملاقات میں اس امید کا اظہار کیا کہ آزاد تجارت کا معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور معاشی سرگرمیوں کو مذید فروغ دے گا۔
وزیراعظم کے مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد نے پاکستان چائنا ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایف ٹی اے کے بعد پاکستان آسیان ملکوں کے برابر آ چکا ہے۔ تاہم صرف ایف ٹی اے پر دستخط ہونا کافی نہیں، ہمیں مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ چین کی منڈی امریکہ کی تجارتی منڈی سے بڑی ہے اور آزاد تجارت کے اس معاہدہ سے پاکستان کی معیشت کو استحکام ملے گا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی افرادی قوت چین کی نسبت سستی ہے اور ٹیکسٹائل اور زراعت سمیت 313 مصنوعات چین کو ڈیوٹی فری برامد کی جا سکیں گی۔
چین نے اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں لگ بھگ 50 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنی ہے۔
تاہم ماہر معاشیات قیصر بنگالی اس آزاد تجارتی معاہدے کو ملک کی معیشت کے لئے زیادہ سود مند نہیں سمجھتے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان نے جن ممالک کے ساتھ بھی آزاد تجارت کے معاہدے کئے اس سے پاکستان کی تجارت کو نقصان ہوا۔ ان کے مطابق چین ہمیں آزاد تجارت کی رسائی تو دے رہا ہے لیکن ہماری صنعتیں کچھ ایسا بنا ہی نہیں رہیں جو چین کو برامد کیا جا سکے۔
گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے اعتراف کیا کہ چین کے ساتھ ہونے والا آزاد تجارت کا پہلا معاہدہ غیر متوازن تھا جس کی وجہ سے 14 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا۔
اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ دوسرے آزاد تجارت کے معاہدے سے باہمی تجارت کے عدم توازن میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔