ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور سلامتی سے متعلق معاملات پر تحقیق کرنے والے ایک عالمی ادارے نے پیر کو کہا کہ ہے پاکستان اور بھارت دونوں ہی اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے اور ان کی ترسیل کے لیے اپنے میزائل نظاموں کی صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں’سپری‘ یعنی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ اس سال جنوری میں دنیا کی نو عالمی جوہری طاقتوں کے جوہری ہتھیاروں کی مجموعی تعداد 15,395 تھی جو گزشتہ سال 15,850۔
تاہم رپورٹ میں انتباہ کیا گیا کہ اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی لائی جا رہی ہے مگر کوئی ملک انہیں چھوڑنے پر تیار ہے بلکہ انہیں جدید بنانے کے لیے امریکہ جیسا بڑا ملک اپنے جوہری پروگرام میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان، بھارت اور چین کے حوالے سے کہا گیا کہ جن ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہے وہ ان کی ترسیل کے لیے نئے میزائل نظام متعارف کرا رہے ہیں یا ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں نے جوہری صلاحیت رکھنے والے میزائلوں کے جدید نظام تیار کیے ہیں اور اس سلسلے میں مزید تجربات کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ بھارت نے دشمن ملک سے آنے والے بیلسٹک میزائل کو گرانے کی صلاحیت رکھنے والے انٹرسیپٹر میزائل کا تجربہ کیا تھا جس پر پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت پاکستان کی مفاہمانہ پالیسی کو اس کی کمزوری نہ سمجھے۔
پاکستان کئی مرتبہ خبردار کر چکا ہے کہ بھارت کی جوہری اور روایتی دفاعی صلاحیت میں اضافہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ٹیکٹیکل ہتھیار بنانے پر مجبور ہوا ہے۔
اگرچہ پاکستان پر مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی طرف سے دباؤ بڑھا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تخفیف کرے مگر پیر کو پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں برائے دفاع اور خارجہ امور کے مشترکہ اجلاس میں بریفنگ میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 110 سے 130 کے درمیان ہے جبکہ بھارت کے ہتھیاروں کی تعداد 100 سے 120 کے درمیان بتائی گئی ہے۔
سویڈش حکومت سٹاک ہوم میں قائم اس ادارے کی جزوی معاونت کرتی ہے جبکہ اس کی تحقیق کا مرکز عالمی سکیورٹی، ہتھیاروں کا کنٹرول اور تخفیف ہے۔