پاکستانی فوج کے سربراہ نے کہا کہ بھارت کو پاکستان کی اُس تجویز کا مثبت جواب دینا چاہیئے جس میں لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے واقعات کی مشترکہ یا اقوام متحدہ کے تحت غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھارت کی جانب سے حالیہ الزام تراشی کو ’’بے بنیاد اور اشتعال انگیز‘‘ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ایسے اقدامات علاقائی امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
جنرل کیانی کا اشارہ بھارت کی عسکری قیادت بشمول فوج کے سربراہ کے اُن بیانات کی طرف تھا جن میں پاکستان کی فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل کیانی نے کہا کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی عارضی سرحد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائر بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں خود پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔
راولپنڈی میں بری فوج کے صدر دفاتر جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں افسران سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا۔
’’(ہم) بھارت کو بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے بجائے پاکستان کی اُس تجویز کا مثبت جواب دینے کا مشورہ دیتے ہیں جس میں لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے واقعات کی مشترکہ یا اقوام متحدہ کے تحت غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘
جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
’’مگر اس (عمل) کو کسی صورت بے بنیاد الزام تراشی کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے جو (الزام تراشی) علاقائی امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا ہے کہ فوج حکومت کی طرف سے بھارت کے ساتھ امن عمل کی حامی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی دو طرفہ تعلقات میں تناؤ میں اضافے کا باعث بنی ہے۔
گزشتہ ماہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات میں دیگر اُمور کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے کشمیر میں سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے اعلٰی فوجی کمانڈروں کے درمیان رابطے کو فعال بنانے پر زور دیا تھا۔
جنرل کیانی کا اشارہ بھارت کی عسکری قیادت بشمول فوج کے سربراہ کے اُن بیانات کی طرف تھا جن میں پاکستان کی فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل کیانی نے کہا کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی عارضی سرحد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائر بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں خود پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔
راولپنڈی میں بری فوج کے صدر دفاتر جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں افسران سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا۔
’’(ہم) بھارت کو بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے بجائے پاکستان کی اُس تجویز کا مثبت جواب دینے کا مشورہ دیتے ہیں جس میں لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے واقعات کی مشترکہ یا اقوام متحدہ کے تحت غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘
جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
’’مگر اس (عمل) کو کسی صورت بے بنیاد الزام تراشی کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے جو (الزام تراشی) علاقائی امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا ہے کہ فوج حکومت کی طرف سے بھارت کے ساتھ امن عمل کی حامی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی دو طرفہ تعلقات میں تناؤ میں اضافے کا باعث بنی ہے۔
گزشتہ ماہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات میں دیگر اُمور کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے کشمیر میں سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے اعلٰی فوجی کمانڈروں کے درمیان رابطے کو فعال بنانے پر زور دیا تھا۔