پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مدارس کی تعلیم کو جدید بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ طلبا معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
کوئٹہ میں نوجوانوں سے خطاب کے دوران جنرل باجوہ نے کہا کہ وہ مدرسوں کے خلاف نہیں، لیکن دینی مدارس میں صرف اسلامی تعلیمات کافی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے مدارس میں صرف مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے، اس لئے وہاں کے طالب علم دنیاوی اور جدید علوم میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دیوبندی مدارس میں 25 لاکھ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ دیوبندی، سنی مسلمان ہیں، جو انتہائی قدامت پسند وہابی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
انہوں نے نوجوانوں سے اپنے خطاب میں سوال اٹھایا کہ یہ طالب علم مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد کہاں جائیں گے، ان کا مستقبل کیا ہے؟ “کیا وہ مولوی بنیں گے یا دہشت گرد۔ مدرسوں سے فارغ اتنے زیادہ طالب علموں کو روزگار دینے کے لئے تو بڑٰی تعداد میں مسجدیں بھی نہیں بنا سکتے“۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ، ڈاکٹر قبلہ آیاز نے وائس آف آمریکہ کے ڈیوا ریڈیو کو بتایا کہ مدرسوں میں اصلاحات ممکن ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس کو سیکورٹی کا ایک مسئلہ سمجھتی ہے۔
اس وقت وزارتِ داخلہ مدرسوں کی اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔ لیکن، یہ اصلاحات مذہبی وزارت اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کو دینی چاہیے، تاکہ مدارس کی تعلیم میں بہتری لائی جائے۔
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت ملک میں 20000 سے زیادہ رجسٹرڈ مدارس ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مدرسوں کے نصاب میں اصلاحات کے لئے کام جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق، سکورٹی ادارے اِن مدارس پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، جو نوجوانوں کو قدامت پسندی کی جانب ترغیب دیتے ہیں اور شدت پسند اسلامی دھڑوں کے لیے بھرتی کرتے ہیں؛ جن کے ہاتھوں سال 2000ء سے پاکستان میں اب تک لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
جب کہ محض گنتی کے چند اسکول بند کئے گئی ہیں، جب کہ مذہبی ردِ عمل کے خوف سے زیادہ تر کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔
ادھر، فوجی سربراہ نے کہا کہ تعلیم کا گرا ہوا معیار 20 کروڑ 70 لاکھ کے ملک کو پسماندہ رکھنے کا سبب بنتا ہے، خاص طور پر مدرسوں کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی وجہ سے۔