پاکستان کی سپریم کورٹ نے بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ممکنہ برطرفی کے خلاف دائر آئینی درخواست باقاعدہ طور پر سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے جب منگل کو اس درخواست کی ابتدائی سماعت کی تو اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے عدالت کو ایک مرتبہ پھر بتایا کہ حکومت فوجی سربراہان کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے ہدایت لے کر بتائیں کہ درخواست کو قابل سماعت قرار دیے جانے پر اُس کو کوئی اعتراض تو نہیں، جس پر مولوی انوار الحق کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کو تحفظات ہوئے تو وہ ان کے بارے میں عدالت کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
مقامی وکیل فضل کریم بٹ کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ امریکی حکام کو لکھے گئے متنازع میمو پر سیاسی و عسکری قیادت کے متضاد موقف کی وجہ سے پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں حکومت نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کے موقف کی بنیاد ذرائع ابلاغ کے دعوے ہیں۔ اُنھوں نے وزیر اعظم گیلانی کے اُس بیان کا ذکر بھی کیا جس میں اُنھوں نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی ممکنہ برطرفی سے متعلق اطلاعات کو مسترد کر دیا تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم گیلانی نے چند روز قبل فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی جانب سے ممیو اسکینڈل کے بارے میں عدالت عظمٰی میں جمع کرائے گئے بیاناتِ حلفی کے بارے میں اپنے تبصرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقات کے بعد اس بارے میں ابہام دور ہو گیا ہے۔
وزیراعظم کے اس بیان کے بعد بظاہر عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی بھی خاصی حد تک کم ہو گئی۔
مسٹر گیلانی نے چینی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ بیاناتِ حلفی براہ راست عدالت عظمیٰ میں جمع کرا کے فوجی قیادت آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی، لیکن تحقیقات کے بعد اُنھوں نے سیکرٹری دفاع نعیم خالد لودھی کو دونوں ریاستی اداروں میں ابہام پیدا کرنے کا سبب قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا تھا۔