میجر جنرل باجوہ نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر میں کی جانی والی قیاس آرائیاں پہلے ہی غلط ثابت ہو چکی ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو ایک بیان میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی خبر کو بے بنیاد اور نا قابل فہم قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
میجر جنرل باجوہ نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر قابل اعتماد نہیں اور اس میں کی جانی والی قیاس آرائیاں پہلے ہی غلط ثابت ہو چکی ہیں۔
نیویارک ٹائمز میں بدھ کو شائع ہونے والی خبر میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ امریکی خصوصی فورس کے دستے کی کارروائی میں القاعدہ کے مارے جانے والے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا علم انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کو تھا۔
اخبار کے مطابق اسامہ بن لادن سے متعلق فوج کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی میں ایک ’سپر سیکریٹ سیل‘ قائم تھا اور اس کے انچارج افسر اس بارے میں اعلیٰ عہدیداروں کو نہیں بتاتے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کو اسامہ کی موجودگی کا علم تھا۔
پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں آئی ایس آئی میں احمد شجاع کی زیر نگرانی اسامہ بن لادن سے متعلق خصوصی سیل قائم کیا گیا۔
راشد قریشی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ کبھی نہیں رہے اور اُن کے بقول القاعدہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر حملوں میں ملوث رہی۔
’’اسامہ، طالبان اور القاعدہ نے مشرف پر تین مرتبہ قاتلانہ حملہ کیا، اگر پرویز مشرف نے (آئی ایس آئی میں) اسامہ کی مدد کے لیے کوئی ڈیسک بنایا ہوتا تو وہ تنظیم اُن پر حملہ کیوں کرتی۔‘‘
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی بنیاد رپورٹر کیرلاٹا گال کو ذرائع سے حاصل والی معلومات تھیں۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں اپنے گھر تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ وہ کبھی کبھار شدت پسند کمانڈروں سے ملاقات کے لیے بھی جاتے تھے اور اُنھوں نے 2009 میں وزیرستان کا دورہ بھی کیا۔
القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء میں امریکی اسپیشل فورسز نے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں رات کی تاریکی میں یکطرفہ کارروائی کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اس کارروائی کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ بھی پیدا ہو گیا کیوں کہ پاکستانی حکومت نے امریکی فورسز کی اس بلا اجازت کارروائی کو ملکی سالمیت اور سرحدی حدود کی کھلی خلاف ورزی سے تعبیر کیا تھا۔
میجر جنرل باجوہ نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر قابل اعتماد نہیں اور اس میں کی جانی والی قیاس آرائیاں پہلے ہی غلط ثابت ہو چکی ہیں۔
نیویارک ٹائمز میں بدھ کو شائع ہونے والی خبر میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ امریکی خصوصی فورس کے دستے کی کارروائی میں القاعدہ کے مارے جانے والے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا علم انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کو تھا۔
اخبار کے مطابق اسامہ بن لادن سے متعلق فوج کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی میں ایک ’سپر سیکریٹ سیل‘ قائم تھا اور اس کے انچارج افسر اس بارے میں اعلیٰ عہدیداروں کو نہیں بتاتے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کو اسامہ کی موجودگی کا علم تھا۔
پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں آئی ایس آئی میں احمد شجاع کی زیر نگرانی اسامہ بن لادن سے متعلق خصوصی سیل قائم کیا گیا۔
راشد قریشی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ کبھی نہیں رہے اور اُن کے بقول القاعدہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر حملوں میں ملوث رہی۔
’’اسامہ، طالبان اور القاعدہ نے مشرف پر تین مرتبہ قاتلانہ حملہ کیا، اگر پرویز مشرف نے (آئی ایس آئی میں) اسامہ کی مدد کے لیے کوئی ڈیسک بنایا ہوتا تو وہ تنظیم اُن پر حملہ کیوں کرتی۔‘‘
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی بنیاد رپورٹر کیرلاٹا گال کو ذرائع سے حاصل والی معلومات تھیں۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں اپنے گھر تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ وہ کبھی کبھار شدت پسند کمانڈروں سے ملاقات کے لیے بھی جاتے تھے اور اُنھوں نے 2009 میں وزیرستان کا دورہ بھی کیا۔
القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء میں امریکی اسپیشل فورسز نے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں رات کی تاریکی میں یکطرفہ کارروائی کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اس کارروائی کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ بھی پیدا ہو گیا کیوں کہ پاکستانی حکومت نے امریکی فورسز کی اس بلا اجازت کارروائی کو ملکی سالمیت اور سرحدی حدود کی کھلی خلاف ورزی سے تعبیر کیا تھا۔