اسلام آباد —
امریکہ کے موقر اخبار نیویارک ٹائمز کی اپنی ایک خبر میں دعوی کیا ہے پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہوا ہے۔
تاہم پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اس خبر کو بے بنیاد اور حقائق سے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
انٹیلی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی کو بھی اسامہ کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں تھا۔
اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء میں امریکی اسپیشل فورسز نے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں اس کی پناہ گاہ پر کارروائی کے دوران ہلاک کردیا تھا۔
پاکستانی حکام بشمول آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا بھی ماضی میں با رہا یہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع تھی۔
امریکی اخبار کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایبٹ آباد میں ہونے والی امریکی کارروائی کے بعد اسے پاکستانی انٹیلی جنس کے عہدیدار نے بتایا تھا کہ امریکہ کے پاس بھی ایسے شواہد موجود تھے کہ احمد شجاع پاشا کو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں معلوم تھا۔
اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے دفتر میں اسامہ بن لادن سے متعلق ایک مخصوص ڈیسک بھی موجود تھا اور اس کے انچارج کسی بھی اعلی عہدیدار کو اس بارے میں آگاہ نہیں کرتے تھے۔
اسامہ بن لادن کے خلاف امریکہ کی خفیہ کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہو گئی جب کہ ملک میں سیاسی و سماجی حلقے اس "بلااجازت " کارروائی کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت بھی کرتے رہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک یہ باور کرتے ہیں کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے القاعدہ اور دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک سے منسلک جنگجووں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر مہلک حملے کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کا اسامہ بن لادن سے رابطہ تھا لیکن حافظ سعید نے بھی اس دعویٰ کے تردید کی۔
تاہم پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اس خبر کو بے بنیاد اور حقائق سے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
انٹیلی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی کو بھی اسامہ کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں تھا۔
اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء میں امریکی اسپیشل فورسز نے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں اس کی پناہ گاہ پر کارروائی کے دوران ہلاک کردیا تھا۔
پاکستانی حکام بشمول آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا بھی ماضی میں با رہا یہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع تھی۔
امریکی اخبار کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایبٹ آباد میں ہونے والی امریکی کارروائی کے بعد اسے پاکستانی انٹیلی جنس کے عہدیدار نے بتایا تھا کہ امریکہ کے پاس بھی ایسے شواہد موجود تھے کہ احمد شجاع پاشا کو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں معلوم تھا۔
اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے دفتر میں اسامہ بن لادن سے متعلق ایک مخصوص ڈیسک بھی موجود تھا اور اس کے انچارج کسی بھی اعلی عہدیدار کو اس بارے میں آگاہ نہیں کرتے تھے۔
اسامہ بن لادن کے خلاف امریکہ کی خفیہ کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہو گئی جب کہ ملک میں سیاسی و سماجی حلقے اس "بلااجازت " کارروائی کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت بھی کرتے رہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک یہ باور کرتے ہیں کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے القاعدہ اور دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک سے منسلک جنگجووں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر مہلک حملے کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کا اسامہ بن لادن سے رابطہ تھا لیکن حافظ سعید نے بھی اس دعویٰ کے تردید کی۔