انسداد پولیو مہم میں فوج سے تعاون کی درخواست

گزشتہ برس پولیو سے متاثرہ 91 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جب کہ رواں سال یہ تعداد پہلے چار مہینوں میں 47 تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان میں انسداد پولیو کی کوششوں میں معاونت کے لیے عالمی ادارہ صحت اور سرکاری عہدیداروں کی جانب سے فوج سے سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

جمعرات کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر میں ہونے والے ایک اجلاس میں اس ضمن میں مربوط کوششوں کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اجلاس میں عالمی ادارہ صحت، وفاقی اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں اور فاٹا سیکریٹریٹ کے نمائندے شریک ہوئے۔

شرکا نے ملک میں پولیو وائرس کی موجودہ صورتحال اور اس کے انسداد کی کوششوں میں درپیش مشکلات پر تبادلہ خیال کیا اور پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کے لیے سلامتی کی صورتحال کو بہتر بناتے ہوئے تمام ضروری اقدامات کرنے پر زور دیا۔

پاکستان میں 2012ء سے ملک کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو کے رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر شدت پسندوں کے جان لیوا حملوں کی وجہ سے یہ کوششیں بارہا تعطل کا شکار ہو چکی ہیں۔

ملک میں کئی بار انسداد پولیو کی مہم کو روکنا یا پھر محدود کرنا پڑا۔

وزیراعظم سیکریٹریٹ میں قائم انسداد پولیو سیل کی سربراہ عائشہ رضا فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے کوششوں کی راہ میں سلامتی کے خدشات بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ اس وائرس کے خاتمے میں مصروف افراد کی جانیں ضائع ہوں۔

’’تو اس لیے ہمیں خوشی ہے کہ انھوں (فوج) نے اس طرح کا اقدام لیا ہے۔۔۔۔ جہاں پر سکیورٹی کا مسئلہ ہے، وہاں یقینی طور پر یہ ہماری مدد کریں گے۔‘‘

عائشہ رضا فاروق کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں خاص طور پر وزیرستان میں پولیو سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں اگر فوج کی مدد سے بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں تو اُس سے یقیناً اس وائرس کے خاتمے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔

نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والے موذی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

انسداد پولیو مہم میں عدم تواتر کی وجہ سے ہی پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ 2012ء میں پولیو کے صرف 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ 2013 میں یہ تعداد 91 ریکارڈ کی گئی۔ رواں برس اب تک پولیو کے 47 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

حکام اور ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر پولیو کے وائرس پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان سے دوسرے ملکوں کو جانے والوں پر سفری پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں۔