پاکستان میں مذہبی تنظیم ’سنی تحریک‘ نے ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہین مذہب کے الزام میں قید مسیحی خاتون آسیہ بی بی سمیت اس جرم میں عدالتوں سے سزا پانے والے تمام افراد کی سزاؤں پر جلد از جلد عمل درآمد کرے۔
ایک ذیلی عدالت سے سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی نے اپنی سزا کے خلاف ملک کی سب سے اعلیٰ ترین عدالت ’سپریم کورٹ‘ میں ایک اپیل دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت ابھی ہونی ہے۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے آسیہ بی بی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ذیلی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو برقرار رکھا تھا۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اُن کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
آسیہ بی بی پر الزام ہے اُنھوں نے 2009 میں ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں کھیتوں میں کام کے دوران وہاں موجود دیگر خواتین کے ساتھ ہونے والی ایک بحث میں پیغمبر اسلام کی توہین کی جس کے بعد اُن کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔
تاہم بعد میں وہ اپنے کئی بیانات میں خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کر چکی ہیں۔
سنی تحریک کی طرف سے یہ مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا جب چند ہفتے قبل ہی اس تنظیم نے دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے ایک دھرنا دیا تھا۔ اس دوران جھڑپوں میں نا صرف کئی پولیس و رینجرز اہلکار زخمی ہوئے بلکہ مظاہرین نے املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔
ممتاز قادری نے 2011ء میں اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس بنا پر قتل کر دیا تھا کہ اُنھوں نے آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کے بعد ملک میں توہین مذہب سے متعلق قوانین میں ترمیم کے حق میں بات کی تھی۔
ممتاز قادری گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا۔
معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب تک کسی ملزم کی تمام اپیل خارج نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک ملک کے قانون کے مطابق اُسے سزا نہیں دی جا سکتی۔
’’آسیہ کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے کہ اُسے بھی پھانسی دے جائے تو یہ غلط ہے اور اسلام کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔۔۔۔ اسلام کے مطابق بھی ہے کہ جو اپیلیں زیر التوا ہیں اور اگر اُن میں دادرسی ہو سکتی ہے تو اس وقت تک سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون پر بات کرنے کو حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے، اسی لیے کھلے عام اس بارے میں بحث نہیں جاتی۔
مذہبی حلقوں کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ وہ اس قانون میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کرے گی۔ حکومت میں شامل کئی سیاسی شخصیات کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس قانون میں کسی طرح کی ترمیم اس وقت زیر غور نہیں۔