صدارتی ترجمان نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن دو طرفہ تعلقات میں یہ اہم کڑی ہے اور اس سلسلے میں بیرونی مداخلت کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔
اسلام آباد —
پاکستان اور ایران کے درمیان رابطوں میں حالیہ ہفتوں میں تیزی آئی ہے اور دونوں ممالک کے اراکین پارلیمان اور عہدیداروں نے ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کیا ہے۔
صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ صدر آصف علی زرداری بدھ کو ایران جائیں گے جہاں وہ اپنے ہم منصب محمود احمدی نژاد سے پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتے سمیت علاقائی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے مختلف اُمور پر بات چیت کریں گے۔
’’یہ دورہ دراصل پاکستان اور ایران کے درمیان روابط میں گہرائی کا مظہر ہے۔ صدر پاکستان کا یہ پہلا دورہ نہیں ہے، اُنھوں نے کئی دورے کیے ہیں مختصر دورانیے کے بھی اور طویل دورانیے کے بھی… یہ دورہ دراصل پاک ایران تعلقات میں مزید گہرائی اور وسعت کے لیے ہے۔‘‘
صدارتی ترجمان نے پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق ممکنہ حتمی سمجھوتے کی تفصیلات تو نہیں بتائیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے گیس درآمد کا یہ ایک اہم سمجھوتا ہے۔
’’جو جزیات ہیں اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن جو ایران پاکستان گیس پائپ لائن ہے یہ دو طرفہ تعلقات میں یہ اہم کڑی ہے اور یقیناًً پاکستان نے کہا ہے کہ ہم یہ پائپ لائن بنائیں گے اور ہم اس سلسلے میں بیرونی مداخلت کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔‘‘
رواں ماہ وزیراعظم کے مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ایرانی حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے 25 کروڑ امریکی ڈالر فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے اس مجوزہ منصوبے کے تحت ایران اپنے ملک کے جنوب میں واقعہ گیس کے ذخائر سے پاکستان کی سرحد تک 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائے گا جب کہ پاکستان کو اپنے ہاں بھی 800 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام کرنا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2010ء میں طے پانے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت ایران نے 2014ء سے پاکستان کو قدرتی گیس کی برآمد شروع کرنا تھی، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔
امریکہ نے تہران کے متنازع جوہری پروگرام کے باعث ایران میں تیل و گیس کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور پابندیوں کے خوف سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اربوں ڈالر کے اس منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے سے دور رہے ہیں۔
صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ صدر آصف علی زرداری بدھ کو ایران جائیں گے جہاں وہ اپنے ہم منصب محمود احمدی نژاد سے پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتے سمیت علاقائی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے مختلف اُمور پر بات چیت کریں گے۔
’’یہ دورہ دراصل پاکستان اور ایران کے درمیان روابط میں گہرائی کا مظہر ہے۔ صدر پاکستان کا یہ پہلا دورہ نہیں ہے، اُنھوں نے کئی دورے کیے ہیں مختصر دورانیے کے بھی اور طویل دورانیے کے بھی… یہ دورہ دراصل پاک ایران تعلقات میں مزید گہرائی اور وسعت کے لیے ہے۔‘‘
یہ دورہ دراصل پاک ایران تعلقات میں مزید گہرائی اور وسعت کے لیے ہے۔‘‘
صدارتی ترجمان نے پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق ممکنہ حتمی سمجھوتے کی تفصیلات تو نہیں بتائیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے گیس درآمد کا یہ ایک اہم سمجھوتا ہے۔
’’جو جزیات ہیں اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن جو ایران پاکستان گیس پائپ لائن ہے یہ دو طرفہ تعلقات میں یہ اہم کڑی ہے اور یقیناًً پاکستان نے کہا ہے کہ ہم یہ پائپ لائن بنائیں گے اور ہم اس سلسلے میں بیرونی مداخلت کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔‘‘
رواں ماہ وزیراعظم کے مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ایرانی حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے 25 کروڑ امریکی ڈالر فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے اس مجوزہ منصوبے کے تحت ایران اپنے ملک کے جنوب میں واقعہ گیس کے ذخائر سے پاکستان کی سرحد تک 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائے گا جب کہ پاکستان کو اپنے ہاں بھی 800 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام کرنا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2010ء میں طے پانے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت ایران نے 2014ء سے پاکستان کو قدرتی گیس کی برآمد شروع کرنا تھی، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔
امریکہ نے تہران کے متنازع جوہری پروگرام کے باعث ایران میں تیل و گیس کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور پابندیوں کے خوف سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اربوں ڈالر کے اس منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے سے دور رہے ہیں۔