پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے بڑھتی ہوئی کشیدگی، پرتشدد مظاہروں، متعدد اموات، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور موبائل انٹرنیٹ پر ’’غیر معینہ مدت کے لیے‘‘ پابندی پر اپنے ردعمل میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاقائی عہدے دار ریمل محی الدین نے تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری صورت حال میں تلخی کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے لوگوں کے حقوق کی مزید سنگین خلاف ورزیوں اور مزید ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکام کا مقصد صورت حال کی شدت میں کمی ہونا چاہیے اور ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال ضرورت کے تحت اور متناسب حد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آتشیں اسلحے سے احتراز کرتے ہوئے طاقت کا کم سے کم استعمال کریں۔ حکام کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی بلاوجہ گرفتاری نہ کی جائے اور یہ کہ ہر گرفتاری کے لیے جرم کے معقول شبہے کا ثبوت موجود ہونا چاہیے۔
SEE ALSO: پاکستان میں انٹر نیٹ کی بندش؛ ’کچھ نقصانات ایسے ہیں جن کا آپ حساب بھی نہیں لگا سکتے‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے موبائل انٹرنیٹ کی غیر معینہ مدت کے لیے بندش کا اعلان تشویش ناک ہے جو لوگوں کے معلومات تک رسائی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر رسائی میں رکاوٹ انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے لیے ماحول فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ ان پابندیوں کو فوری طور پر ہٹایا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ 8 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے رینجرز نے اس وقت گرفتار کر لیا تھا جب وہ اپنے خلاف ایک مقدمے کی ضمانت کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ جس کے ردعمل میں ان کے حامیوں نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کیے جن میں فوج اور دیگر سرکاری تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
ان ہنگامہ آرائیوں کے دوران متعدد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے اور لوٹ مار کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
جمعرات 11 مئی کو سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں دوبارہ ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔