پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی اور پرتشدد ہنگاموں کے دوران روپے کی قدر میں بھی ریکارڈ کمی دیکھی جارہی ہے۔ جمعرات کو مسلسل دوسرے روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں زبردست کمی دیکھی گئی۔
ایک ہی روز میں انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت مزید سات روپے 78 پیسے بڑھ کر 298 روپے تک جاپہنچی ہے۔ بدھ کے روز کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قیمت 290 روپے 22 پیسے ریکارڈ کی گئی تھی۔
معاشی ماہر اور تجزیہ کار عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے سبب پائی جانے والی معاشی بے یقینی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس تمام تر صورتِ حال میں روپے کی قدر کو شدید دھچکا لگا ہے اور اس کا اثر آنے والے دنوں میں ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کی صورت میں سامنے آئے گا۔
عبدالعظیم کا کہنا تھا کہ ملک میں جب سے مہنگائی کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے اس قدر مہنگائی نہیں دیکھی گئی اور آنے والے دنوں میں یہ کہیں بھی کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
اُن کے بقول ایسے میں ہم یہی پیش گوئی کرسکتے ہیں کہ غریب تو غریب متوسط طبقات کے لیے بھی آنے والے حالات معاشی لحاظ سے اور بھی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے پیچھے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد امن و امان کی موجودہ صورتِ حال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اب مذاکرات اور بات چیت کے علاوہ کوئی اور راستہ اس نقصان کو پورا نہیں کرسکتا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں صرف ایک ماہ میں 5 فی صد جب کہ ایک سال میں 37 فی صد گراوٹ دیکھی جاچکی ہے۔
پاکستان میں غذائی اشیا سے لے کر عام استعمال کی سینکڑوں اشیا اور سب سے بڑھ کر ایندھن کا دارومدار درآمدات پر ہے ایسے میں امریکی ڈالر میں منگوائی گئی اشیا پاکستانی روپے کی قدر کم ہونے کے باعث یہاں مہنگی فروخت ہوں گی ۔
خیال رہے کہ پاکستان کے ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اپریل کے اختتام پر سامنے آنے والے اعداد و شمار میں مہنگائی کی ماہانہ شرح 36 اعشاریہ 4 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
گزشتہ سال اپریل میں یہ شرح صرف 13.4 فی صد تھی۔ تجزیہ کار عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی کی شرح تاریخی سطح پر ہے اور آنے والے دنوں میں روپے کی حالیہ بے قدری کے نتیجے میں اس میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔
پاکستان فیڈریشن آف چیمبرزاینڈ کامرس (ایف پی سی سی آئی) کےعرفان اقبال شیخ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان فوری طور پر کمرشل بینکوں یا اسٹیٹ بینک کے مجاز ڈیلرز کے زرِمبادلہ میں جرمانے کی صورت میں 3 سے 9 فی صد کے چارج کو فوراً روکے اور برآمد کنندگان کے بینک اکاونٹس کو مارک نہ کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ برآمد کنندگان کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے اور وہ ناقابل برداشت مالی نقصانات سے بچنے کے لیے اپنی آمدنی کو اپنے وطن واپس لانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی ڈالر کی قدر میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں سونے کی قدر میں بھی مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے اور ایک تولہ سونے کی قیمت بدھ کو 2 لاکھ 40 ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی جو اب تک کی ملک میں سب سے بلند ترین قیمت ہے۔
ادھر پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے دستخط کرنے کی کوئی امید فی الحال تو نظر نہیں آرہی ہے۔
لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف کے ترجمان نے بلومبرگ کے نمائندے کو بتایا ہے کہ فنڈ پاکستانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ ملک کے لیے بیرونی فنڈنگ کا انتظام اور فنڈ کی جانب سے دی گئی پالیسیوں پر عمل درآمد کی یقین دہانیاں حاصل کی جاسکیں۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ 2019 میں طے ہونے والے 6.7 ارب ڈالر قرض پروگرام کے تحت نواں جائزہ مکمل کرکے پاکستان کو ادائیگی کردی جائے۔