اب تک سرکاری طور پر 47 حلقوں کے نتائج کے ساتھ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔
کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کی اسمبلی کے نو منتخب اراکین نے ہفتہ کو حلف اُٹھایا۔
گیارہ مئی کو صوبائی اسمبلی کی 51 میں سے پچاس نشستوں پر انتخابات ہو ئے تھے۔ ایک نشست حلقہ پی بی 32 پر انتخابات اُمیدوار عبدالفتح کی ہلاکت کے باعث نہیں ہو سکے جبکہ ایک حلقے کے اُمیدوار کو عدالت نے جعلی ڈگر ی کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا ہے اور ایک حلقے کے نتیجے کا اعلان تاحال الیکشن کمیشن نے نہیں کیا۔
اب تک سرکاری طور پر 47 حلقوں کے نتائج کے ساتھ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔
ارکان کی طرف سے حلف اٹھانے کے باوجود قدرتی وسائل سے مالامال لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے کے وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا اعلان انتخابات کو اکیس روز گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکا اور نہ ہی یہ واضح ہو سکا ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومت کے قیام کے لیے اتحاد کرنے والی تین بڑی صوبائی پارلیمانی جماعتوں میں سے وزیراعلیٰ کا تعلق کس جماعت سے ہو گا ۔
انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے میں حکومت کی تشکیل سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا حق ہے اور مسلم لیگ ن کی نشستیں باقی تمام جماعتوں سے زیادہ ہیں۔
بلوچستان کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سر براہ ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی اور پختو نخواہ ملی عوامی پارٹی نے وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا اختیار مسلم لیگ (ن) کے سر براہ میاں نواز شریف کو دے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب جاری کیے گئے حتمی نتائج کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 19 ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14 ، نیشنل پارٹی کے 11 ، جمعیت علما اسلام (ف 08 )، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے دو، اے این پی، بی این پی عوامی اور وحدت مسلمین کا ایک ایک رکن ہے۔
سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پا رٹی کے دو ارکان نے بھی ہفتہ کو حلف نہیں لیا۔ بی این پی کے سر براہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ دو جون کو کو ئٹہ میں بی این پی کی مر کزی کمیٹی کا اجلاس ہو گا جس میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھنے یا مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا جائیگا۔
گیارہ مئی کو صوبائی اسمبلی کی 51 میں سے پچاس نشستوں پر انتخابات ہو ئے تھے۔ ایک نشست حلقہ پی بی 32 پر انتخابات اُمیدوار عبدالفتح کی ہلاکت کے باعث نہیں ہو سکے جبکہ ایک حلقے کے اُمیدوار کو عدالت نے جعلی ڈگر ی کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا ہے اور ایک حلقے کے نتیجے کا اعلان تاحال الیکشن کمیشن نے نہیں کیا۔
اب تک سرکاری طور پر 47 حلقوں کے نتائج کے ساتھ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔
ارکان کی طرف سے حلف اٹھانے کے باوجود قدرتی وسائل سے مالامال لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے کے وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا اعلان انتخابات کو اکیس روز گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکا اور نہ ہی یہ واضح ہو سکا ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومت کے قیام کے لیے اتحاد کرنے والی تین بڑی صوبائی پارلیمانی جماعتوں میں سے وزیراعلیٰ کا تعلق کس جماعت سے ہو گا ۔
انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے میں حکومت کی تشکیل سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا حق ہے اور مسلم لیگ ن کی نشستیں باقی تمام جماعتوں سے زیادہ ہیں۔
بلوچستان کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سر براہ ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی اور پختو نخواہ ملی عوامی پارٹی نے وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا اختیار مسلم لیگ (ن) کے سر براہ میاں نواز شریف کو دے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب جاری کیے گئے حتمی نتائج کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 19 ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14 ، نیشنل پارٹی کے 11 ، جمعیت علما اسلام (ف 08 )، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے دو، اے این پی، بی این پی عوامی اور وحدت مسلمین کا ایک ایک رکن ہے۔
سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پا رٹی کے دو ارکان نے بھی ہفتہ کو حلف نہیں لیا۔ بی این پی کے سر براہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ دو جون کو کو ئٹہ میں بی این پی کی مر کزی کمیٹی کا اجلاس ہو گا جس میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھنے یا مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا جائیگا۔