پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور حکومت توانائی کے ذرائع حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ملک کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اس صوبے میں اب تک بڑے بڑے معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور مختلف کمپنیاں صوبے کے مختلف علاقوں میں یہ کام جاری رکھی ہوئے ہیں۔
حال ہی میں صوبے کے تین اضلاع میں زیر زمین گیس کے بڑے ذخائر کو تلاش کیا گیا ہے جسے اب بروئے کار لانے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تیل و گیس کی تلاش کا کام کر نے والے ادارے ’آئل اینڈ گیس ڈیلولمنٹ اتھارٹی‘ یعنی ’او جی ڈی سی ایل‘ کے صوبائی سربراہ اکرام کاسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت بلوچستان کے اضلاع ’’خاران، ژوب، شیرانی، کوہلو، بارکھان پشین‘‘ میں گیس کی تلاش کے حوالے سے کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ضلع خاران اور کو ہلو ،بارکھان سے گیس کے زیر زمین ذخائر کی تلاش کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے۔
"خاران میں بہت مثبت پیشرفت ہوئی ہے ۔۔۔ تلاش کے بعد پی پی ایل کو بہت بڑے گیس کے ذخائر ملے ہیں، ہم بھی پُر اُمید ہیں کہ خاران میں ہمیں بڑی کامیابی ہو گی، کوہلو بارکھان میں بڑے ذخائر کی تصدیق ہوئی ہے آئندہ چھ ماہ میں ہم اس پر کام شروع کر دیں گے"۔
اکرام کاسی کا کہنا تھا کہ ضلع جھل مگسی میں زیر زمین گیس کے ذخائر تلاش کرنے کے بعد اب وہاں گیس کو صاف کرنے کا پلانٹ لگا دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جیسے ہی سوئی سدرن کمپنی پائپ لائن بچھا لے گی، وہاں سے گیس قومی پائپ لائن میں شامل ہو جائے گی جب کہ اس کے علاوہ ضلع لسبیلہ میں بھی گیس کے ذخائر تلاش کیے جائیں گے۔
حکام کے مطابق ضلع پشین کے علاقے بوستان میں یہ کام مکمل کر لیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ صوبے کے جن علاقوں سے گیس نکالی جا رہی ہے، سُپریم کورٹ کے حکم کے مطابق صوبے کے 26 اضلاع میں او جی ڈی سی سماجی بہبود کے مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کر رہی ہے جس سے مقامی لوگوں کو کافی فائدہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان کی حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ قدرتی ذخائر کی تلاش کے لیے صوبائی حکومت مختلف کمپنیوں سے معاہدے کرے گی۔
"ہمارے جتنے بھی معدنی ذرائع ہیں ہم اُن کی تلاش کریں گے اور کو شش کر ینگے کہ اُس کے لیے بھی (کوشش کریں گے) کہ مختلف کمپنیوں یا ممالک کے ساتھ مشتر کہ سرمایہ کاری کی جائے اور قدرتی وسائل کے ذخائر مزید تلاش کیے جاسکیں، تو آمدنی میں اضافے کے بغیر صوبہ بلوچستان کے اخراجات کو پورا کرنے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے اس حوالے سے اسمبلی میں قانون سازی بھی کی جائے گی"۔
پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں 1952ء میں ضلع ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقوں میں گیس کے زیر زمین ذخائر دریافت ہوئے تھے جہاں سے گیس نکالنے کے لیے نوے سے زائد ٹیوب ویل لگائے گئے تھے۔
تاہم صوبے میں بدامنی کے واقعات کے بعد ان میں دو درجن سے زائد ٹیوب ویل کو بارودی مواد اور دیسی ساختہ بم (ائی ای ڈی ) تباہ کیا گیا اور گیس کو صاف کرنے والے پلانٹ پر بھی کئی بار حملہ کیا گیا۔
بلوچستان کے ضلع زیارت کے علاقے زرغون سے بھی گیس نکالی جا رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس کی بدولت جہاں ملک کے بعض علاقوں میں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی وہیں بلوچستان کا 95 فیصد علاقے اب بھی اس سہولت سے محروم ہے۔
ناقدین کے بقول صوبے کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی مبینہ بدعنوانی اور ناقص طرز حکمرانی کے باعث گیس کی اربوں کی آمدن اس پسماندہ صوبے کے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کا باعث نہیں بن سکی، بلکہ قیمتی وسائل کے حامل صوبے میں غربت کی شرح 74 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے