اس سے قبل کوئٹہ سے گزشتہ ماہ اغوا ہونے والے معروف سرجن ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو تاحال بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے
کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی مجموعی غیر تسلی بخش صورتحال کے علاوہ یہاں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اغوا برائے تاوان کا تازہ ترین واقعہ بدھ کو پیش آیا جس میں نامعلوم افراد نے عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور صوبے میں پشتون کاسی قبیلے کے سربراہ نواب ارباب عبدالقادر کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مصروف کاروباری علاقے سے اغوا کر لیا۔
پولیس حکام کے مطابق ان کی بازیابی کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے اور شہر کے مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کر کے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل کوئٹہ سے گزشتہ ماہ اغوا ہونے والے معروف سرجن ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو تاحال بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے جس پر صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر دن دس بجے سے دوپہر دو بجے تک احتجاجاً ہڑتال کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبے میں طبی ماہرین اپنے تحفظ کے لیے تشویش میں مبتلا ہیں اور حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر انھیں کوئی خاص یقین دہانی نہیں کروائی جا رہی۔
ایسوسی ایشن کے ایک رہنما ڈاکٹر سعادت مندوخیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ’’ہم تو عوام ہیں یہ تو سرکار کا کام ہے کہ وہ پتا کہ کریں کون اغوا کر رہا ہے اور بازیابی کے لیے کیا کرنا ہے اور ایسے واقعات کو کیسے روکنا ہے۔‘‘
ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق حالیہ برسوں میں صوبے سے اب تک 26 ڈاکٹرز کو اغوا اور 18 کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے جب کہ ڈاکٹروں سمیت شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے 84 افراد ان ہی حالات کی وجہ سے صوبے سے ملک کے دیگر علاقوں یا بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔
صوبائی وزیرداخلہ محمد سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت ایسے منظم جرائم کے تدارک کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کر رہی ہے۔
’’اس میں ہماری خفیہ ایجنسیز، پولیس اور دیگر ادارے، قبائلی عمائدین اور سیاسی رہنماؤں کو ساتھ لے کر ایک جامع منصوبہ بنایا جائے گا اور ہم جلد ایسے منظم جرائم پر قابو پا لیں گے۔‘‘
سرفراز بگٹی نے اعتراف کیا کہ صوبے میں اغوا کے علاوہ دیگر منظم جرائم کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان کے بقول نئی حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد ایسے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے صحت کے علاوہ شعبہ تعلیم اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ بھی یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اغوا برائے تاوان کا تازہ ترین واقعہ بدھ کو پیش آیا جس میں نامعلوم افراد نے عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور صوبے میں پشتون کاسی قبیلے کے سربراہ نواب ارباب عبدالقادر کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مصروف کاروباری علاقے سے اغوا کر لیا۔
پولیس حکام کے مطابق ان کی بازیابی کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے اور شہر کے مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کر کے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل کوئٹہ سے گزشتہ ماہ اغوا ہونے والے معروف سرجن ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو تاحال بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے جس پر صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر دن دس بجے سے دوپہر دو بجے تک احتجاجاً ہڑتال کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبے میں طبی ماہرین اپنے تحفظ کے لیے تشویش میں مبتلا ہیں اور حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر انھیں کوئی خاص یقین دہانی نہیں کروائی جا رہی۔
ایسوسی ایشن کے ایک رہنما ڈاکٹر سعادت مندوخیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ’’ہم تو عوام ہیں یہ تو سرکار کا کام ہے کہ وہ پتا کہ کریں کون اغوا کر رہا ہے اور بازیابی کے لیے کیا کرنا ہے اور ایسے واقعات کو کیسے روکنا ہے۔‘‘
ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق حالیہ برسوں میں صوبے سے اب تک 26 ڈاکٹرز کو اغوا اور 18 کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے جب کہ ڈاکٹروں سمیت شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے 84 افراد ان ہی حالات کی وجہ سے صوبے سے ملک کے دیگر علاقوں یا بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔
صوبائی وزیرداخلہ محمد سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت ایسے منظم جرائم کے تدارک کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کر رہی ہے۔
’’اس میں ہماری خفیہ ایجنسیز، پولیس اور دیگر ادارے، قبائلی عمائدین اور سیاسی رہنماؤں کو ساتھ لے کر ایک جامع منصوبہ بنایا جائے گا اور ہم جلد ایسے منظم جرائم پر قابو پا لیں گے۔‘‘
سرفراز بگٹی نے اعتراف کیا کہ صوبے میں اغوا کے علاوہ دیگر منظم جرائم کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان کے بقول نئی حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد ایسے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے صحت کے علاوہ شعبہ تعلیم اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ بھی یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔