صوبائی وزیرداخلہ نے کہا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن نہیں ہو رہا البتہ صوبے کے جس علاقے میں بھی ایف سی پر حملہ کیا جاتا ہے وہاں عسکریت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جاتی ہے۔
کوئٹہ —
بلوچستان میں حکام کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی میں مشتبہ بلوچ عسکر یت پسندوں کے خلاف کارروائی جمعرات کو تیسرے روز بھی کارروائی جاری رہی جس میں فرنٹئیر کور کے تین اہلکاروں سمیت 41 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
فرنٹیئر کور کی طرف سے کارروائی کے دوران عسکریت پسندوں کے کئی کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی نے جمعرات کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کشمور کے علاقے میں رینجرز کے اہلکاروں پر نا معلوم مسلح افراد نے خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس میں رینجرز کے دو اہلکار ہلاک اور ایک افسر سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔
حکام کے مطابق حملہ آور فرار ہونے کے بعد سندھ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں روپوش ہو گئے تھے۔ جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عسکر یت پسندوں کے تباہ کیے گئے کیمپوں سے 350 کلو گرام بارودی مواد، 50 سے زائد بارودی سرنگیں اور دیسی ساخت کے بم بھی برآمد کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن نہیں ہو رہا البتہ صوبے کے جس علاقے میں بھی ایف سی پر حملہ کیا جاتا ہے وہاں عسکریت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جاتی ہے۔
ہلاکتوں سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ کے اس دعوے کی غیر جانبدار یا آزاد ذرائع نے تصدیق نہیں ہو سکی ہے کیوں کہ علاقے میں اب بھی کارروائی جاری ہے۔
رواں سال اپریل میں بھی بلوچستان کے ضلع تر بت میں ایف سی کے ایک آپریشن میں 30 بلوچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقے میں فرنٹیئر کور اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی میں بگٹی اور دیگر بلوچ قبائل کے 50 سے زائد گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔
تاہم حکام کی طرف سے ایسے دعوؤں کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر رکھی ہے جس کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے رابطے کرنے اور صوبے کے حالات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لیکن وزیراعلیٰ کی جانب سے علیحدگی پسند بلوچ رہنماؤں سے رابطوں کے باوجود تاحال اس بارے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
فرنٹیئر کور کی طرف سے کارروائی کے دوران عسکریت پسندوں کے کئی کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی نے جمعرات کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کشمور کے علاقے میں رینجرز کے اہلکاروں پر نا معلوم مسلح افراد نے خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس میں رینجرز کے دو اہلکار ہلاک اور ایک افسر سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔
حکام کے مطابق حملہ آور فرار ہونے کے بعد سندھ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں روپوش ہو گئے تھے۔ جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عسکر یت پسندوں کے تباہ کیے گئے کیمپوں سے 350 کلو گرام بارودی مواد، 50 سے زائد بارودی سرنگیں اور دیسی ساخت کے بم بھی برآمد کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن نہیں ہو رہا البتہ صوبے کے جس علاقے میں بھی ایف سی پر حملہ کیا جاتا ہے وہاں عسکریت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جاتی ہے۔
ہلاکتوں سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ کے اس دعوے کی غیر جانبدار یا آزاد ذرائع نے تصدیق نہیں ہو سکی ہے کیوں کہ علاقے میں اب بھی کارروائی جاری ہے۔
رواں سال اپریل میں بھی بلوچستان کے ضلع تر بت میں ایف سی کے ایک آپریشن میں 30 بلوچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقے میں فرنٹیئر کور اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی میں بگٹی اور دیگر بلوچ قبائل کے 50 سے زائد گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔
تاہم حکام کی طرف سے ایسے دعوؤں کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر رکھی ہے جس کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے رابطے کرنے اور صوبے کے حالات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لیکن وزیراعلیٰ کی جانب سے علیحدگی پسند بلوچ رہنماؤں سے رابطوں کے باوجود تاحال اس بارے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔