وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ ناراض بلوچ رہنما واپس آ جائیں تو ان سے کسی طرح کی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
پاکستان میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے ناراض قوم پرست بلوچ رہنماؤں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر انھیں قومی دھارے میں شامل ہونے کی پیش کش کی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ جو ناراض بلوچ رہنما واپس آنا چاہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
’’جو ناراض گروپ ہیں یا وہ جو پہاڑوں پر چلے گئے ہیں ہم (ان کے لیے) عام معافی کا اعلان کرتے ہیں، کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ آؤ مین اسٹریم (قومی دھارے) میں شامل ہو جاؤ۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ لندن میں مقیم بلوچ رہنماء حیربیار مری اور سوئیٹزرلینڈ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے براہمداغ بگٹی کو وطن واپس لانے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو ’’ہمارے اراکین پارلیمان بھی جائیں گے‘‘۔
’’شرط ایک ہی ہے کہ پاکستان کے پرچم کے تلے پاکستان کی بات کرو، ہم آپ کے ساتھ ہیں جو کہو گے کریں گے لیکن جو بھی پاکستان کے خلاف بات کرے گا اس کے ساتھ بات چیت نہیں ہو گی۔‘‘
اس سے قبل پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال سے متعلق بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی ’بی ایل اے‘ صوبے میں ترقیاتی کاموں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور ان منصوبوں سے منسلک افراد کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے صوبے میں تعینات نیم فوجی فرنٹئیر کور ’ایف سی‘ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ماتحت کر دیا تھا اور ان کے بقول صوبے کے صرف پانچ فیصد علاقے میں ایف سی سرکاری اداروں کی معاونت کرتی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت یا سیاسی قیادت کو اگر کوئی اعتراض ہے تو وہ ایف سی کو واپس بلانے کے لیے تیار ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ جو ناراض بلوچ رہنما واپس آنا چاہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
’’جو ناراض گروپ ہیں یا وہ جو پہاڑوں پر چلے گئے ہیں ہم (ان کے لیے) عام معافی کا اعلان کرتے ہیں، کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ آؤ مین اسٹریم (قومی دھارے) میں شامل ہو جاؤ۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ لندن میں مقیم بلوچ رہنماء حیربیار مری اور سوئیٹزرلینڈ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے براہمداغ بگٹی کو وطن واپس لانے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو ’’ہمارے اراکین پارلیمان بھی جائیں گے‘‘۔
’’شرط ایک ہی ہے کہ پاکستان کے پرچم کے تلے پاکستان کی بات کرو، ہم آپ کے ساتھ ہیں جو کہو گے کریں گے لیکن جو بھی پاکستان کے خلاف بات کرے گا اس کے ساتھ بات چیت نہیں ہو گی۔‘‘
اس سے قبل پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال سے متعلق بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی ’بی ایل اے‘ صوبے میں ترقیاتی کاموں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور ان منصوبوں سے منسلک افراد کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے صوبے میں تعینات نیم فوجی فرنٹئیر کور ’ایف سی‘ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ماتحت کر دیا تھا اور ان کے بقول صوبے کے صرف پانچ فیصد علاقے میں ایف سی سرکاری اداروں کی معاونت کرتی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت یا سیاسی قیادت کو اگر کوئی اعتراض ہے تو وہ ایف سی کو واپس بلانے کے لیے تیار ہیں۔