صدر آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی پاکستان میں مصروفیات سیاسی حلقوں اور میڈیا میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے لیکن حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ اُن کی ملک میں موجودگی معمول کی بات ہے۔
لندن میں زیر تعلیم بلاول کی اپنے وطن آمد اس وقت ہوئی جب صدر زرداری علاج کے لیے اچانک دبئی روانہ ہو گئے۔
پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 23 سالہ چیئرمین گرشتہ ایک ہفتے کے دوران اپنی جماعت کے اجلاسوں میں شرکت کےعلاوہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔
ان کی غیر معمولی سیاسی مصروفیات کے باعث مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور تبصروں میں کہا جا رہا ہے کہ بلاول نے بظاہر عملی سیاست میں قدم رکھ دیا ہے۔
لیکن پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ان دعوؤں کو محض قیاس آرائیاں قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو وقتاً فوقتاً پاکستان آتے رہے ہیں اوران کی ملک میں حالیہ موجودگی کا بھی کوئی سیاسی پہلو نہیں۔
’’شریک چیئرمین کے طور پر صدر صاحب جماعت چلا رہے ہیں، بلاول صاحب اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ تعلیم مکمل کرکے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔’’
قمر زمان کائرہ نے ان قیاس آرائیوں کی بھی نفی کی کہ پی پی پی کے چیئرمین اپنے والد صدر آصف علی زرداری کی پاکستان میں کمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت بلاول بھٹو کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کا مقصد ملک میں بے چینی اور مباحثوں کو ہوا دینا ہے۔
تاہم مبصرین کے خیال میں بلاول بھٹو کی سیاسی مصروفیات کا مقصد پی پی پی کے کارکنوں کو متحد کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے کیوں کہ حالیہ مہینوں میں جماعت میں صدر زرداری کی پالیسیوں پر تحفظات کے اظہار میں آضافے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
چند روز قبل پی پی پی کے سینیئر رکن اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی اور جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا کیوں کہ اُن کے بقول اب یہ جماعت محض ’زرداری لیگ‘ بن کر رہ گئی ہے۔
پیپلز پارٹی شاہ محمود قریشی کی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہتی آئی ہے کہ وہ پارٹی سے اس لیے علیحدہ ہوئے کہ انھیں دوبارہ وزیر خارجہ نہیں بنایا گیا، اور ان کے جانے سے جماعت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت ان دنوں کئی تنازعات بشمول میمو اسکینڈل کی وجہ سے بظاہر دباؤ کا شکار ہے اور صدر زرداری کی اچانک بیرون ملک روانگی کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ میں ان کے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ لیکن مقامی صحافیوں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے صدر زرداری نے خود ان قیاس آرائیوں کو مسترد کیا اور کہا کہ وہ جلد وطن واپس آ کر اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنھبال لیں گے۔
صدر زرداری گزشتہ ہفتے عارضہ قلب کی علامات ظاہر ہونے کے بعد دبئی روانہ ہو گئے تھے جہاں اُن کے قریبی ساتھیوں کے بقول معالجوں نے طبی جائزوں کے بعد صدر مملکت کی صحت کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اُنھیں کچھ روز مزید آرام کا مشورہ دیا ہے۔