پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ دل کا معمولی دورہ پڑنے کے بعد وہ علاج کے لیے دبئی گئے ہیں جہاں اس وقت ایک اسپتال میں ڈاکٹر اُن کی نگہداشت کر رہے ہیں۔
لیکن مقبولیت کھوتے پاکستانی صدرکی اچانک بیرون ملک روانگی کے بعد بدھ کومقامی ذرائع ابلاغ میں تمام دن صدر کے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں۔
صدر کو اتوار کے روز سینے میں اچانک درد محسوس ہوا اور ڈاکٹروں نے اسے ایک سنجیدہ معاملہ قرار دے کر اُنھیں علاج کے لیے فوری طور پر لندن یا دبئی جانے کا مشورہ دیا۔
تاہم ذرائع کے مطابق مختلف طبی مسائل کا شکار آصف علی زرداری نے حسب معمول اس مرتبہ بھی اپنی بیماری کو معمولی مسئلہ قرار دے کر ڈاکٹروں کے مشورے کو نظر انداز کردیا۔
لیکن جب اُنھوں نے اپنے تمام قریبی رفقا کی بات ماننے سے انکار کر دیا تو بیرون ملک مقیم ان کے بچوں کو وطن واپس بلایا گیا تاکہ وہ اپنے والد کو علاج کے لیے بیرون جانے پر آمادہ کر سکیں جس میں اُنھیں کامیابی بھی ہوئی۔
ایوان صدر کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ صدر زرداری کو دبئی روانہ کرنے کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے اور حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو وطن میں رک گئے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بلاول کی پاکستان میں موجودگی اور بدھ کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ان کی ملاقات کی تصدیق کی گئی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ اپنے بچوں کے اصرار پر صدر زرداری علاج کے لیے دبئی جانے پر آمادہ ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کو لاحق عارضہ قلب کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کے باعث وہ دبئی علاج کے لیے گئے ہیں اوراس وقت ان کی حالت مستحکم ہے۔ بیان کے مطابق ڈاکٹروں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وہ وطن واپس آ کر ا پنے معمول کے فرائض انجام دیں گے۔
صدر زرداری کو چھ سال قبل بھی دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد سے وہ باقاعدگی سے علاج کے لیے ادویات لے رہے ہیں۔
لیکن اس سے قبل ایوان صدر سے منگل کی شب جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی صدر معمول کے طبی معائنے کے لیے دبئی گئے ہیں۔
ان متضاد بیانات کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑنا شروع ہو گئیں کہ صدر زرداری مستعفی ہو رہے ہیں جس کی وجہ امریکی قیادت کو لکھا گیا ان سے منسوب میمو یا خط ہے جس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے ایک تفتیشی کمیشن قائم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
ذرائع نے ان اطلاعات کو بھی مسترد کیا ہے کہ دبئی راونگی کے لیے صدر کو ایمبولینس میں جہاز تک لے جایا گیا بلکہ اس کے برعکس مسٹر زرداری ائرپورٹ جانے کے لیے خود چل کر گاڑی میں بیھٹے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی صدر کی حالت تشویش سے باہر ہے اور وہ چند روز تک دبئی اسپتال میں زیر علاج رہیں گے۔
’میمو گیٹ‘ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 56 سالہ صدر زرداری اور ان کی حکومت سیاسی مخالفین کی طرف سے مسلسل دباؤ میں ہے جو مبینہ مکتوب لکھنے کا جرم ثابت ہونے پر صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں اپوزیشن رہنما نواز شریف کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر ایک آئینی درخواست بھی زیر سماعت ہے۔
گزشتہ ہفتے ایوان صدر کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ عاشورہ کے بعد صدر زرداری پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ میمو گیٹ اسکینڈل اور پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے پر اپنا موقف پیش کریں گے۔ ان کا یہ خطاب اب ملتوی کردیا گیا ہے۔
اُن کی حکمران پیپلز پارٹی پر اس وقت بدعنوانی، ناقص انداز حکمرانی اور اقربا پروری کے الزمات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عملدرآمد میں حیل وحجت پر بھی ناقدین کی طرف سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے بارے میں کیے گئے گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے میں 71 فیصد افراد نے موجودہ حکومت کے خاتمے کو ترجیح دی تھی۔
پی پی پی کی مخلوط حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جبکہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔