امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں رائج قوانین کے امتیازی نفاذ اور انھیں ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے خلاف کوششوں کی یقیناً حمایت کرتا ہے لیکن ان قوانین کے بارے میں بحث اور کوئی بھی فیصلہ خود پاکستانی عوام نے کرنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار جمہوریت، انسانی حقوق اور محنت سے متعلق امور پر جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کے معاون وزیر خارجہ مائیکل پوسنرنے ہفتہ کو اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کے زیراہتمام صحافیوں کے ساتھ ایک مجلسِ مذاکرہ میں کیا ۔
ناموس رسالت کے قانون میں اصلاحات کے حق میں بیان دینے پر رواں ماہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے انھوں نے مقتول کے خاندان سے اظہار ہمدردی کیا ۔
تاہم توہین رسالت سے متعلق پاکستان کے متنازع قانون میں اصلاحات کے سول سوسائٹی کے مطالبات پرمائیکل پوسنر کا انداز انتہائی محتاط تھا۔ ” میرے خیال میں ایسے مسائل نہایت اہم ، توجہ اور حل طلب ہیں جن کا تعلق کسی بھی قانون کے امتیازی اطلاق یا پھراُسے ذاتی جھگڑوں اور انتقام کے لیے استعمال کرنے سے ہو۔“
انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں ہرگز ابہام کا شکار نہیں کہ ناموس رسالت ایکٹ کا غلط استعمال ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل خود پاکستانی حکومت، عوام اور سیاست دانوں کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
امریکی معاون وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ انسانی حقوق کے ایجنڈے کو کسی دوسر ے ملک پر مسلط کرنا بہت مشکل ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی تبدیلی صرف کسی ملک میں اندرونی طور پر ہی آسکتی ہے۔
انھوں نے انسانی حقوق کے تناظر میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔” میں فوجی آپریشنز اور حکمت عملی سے متعلق کسی بھی معاملے پر میں اظہار خیال نہیں کرنا چاہوں گا۔“