جھنگ بار ایسوسی ایشن کے صدر مہر محمد افضل نے بتایا کہ کسی نے بھی حضرت عمر کی شان میں دانستہ گستاخی نہیں کی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پولیس نے 68 وکلا کے خلاف ایک صحابی کے نام کی مبینہ طور پر توہین کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں رہنے والے ضلع جھنگ میں یہ مقدمہ سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی درخواست پر درج کیا گیا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایک پولیس انسپکٹر کےخلاف مظاہرہ کرنے والے وکلا، جن میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے، نے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے نام کی مبینہ طور پر توہین کی۔
درخواست گزار کے مطابق مظاہرین کے اس اقدام سے ان کے جذبات مجروح ہوئے۔
جھنگ کے ضلع پولیس افسر ذیشان اصغر نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دراصل یہ معاملہ ایک پولیس انسپکٹر عمردراز کی طرف سے ایک وکیل کو زدو کوب کرنے کے بعد شروع ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا اس پولیس افسر کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے دفتر کے قریب پہنچے جہاں اہلسنت والجماعت کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔
ذیشان اصغر نے بتایا کہ مظاہرین مقامی زبان میں پولیس انسپکٹر کے نام کا ’عرف‘ پکارتے ہوئے نعرے بازی کر رہے تھے۔
"اس پر مولانا کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے ہمیں دیکھ کر یہ نعرے لگائے۔۔۔ ہم نے انھیں بتایا کہ اس کو اصل واقعے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور یہ پولیس انسپکٹر کا نام لے کر نعرے لگا رہے تھے۔"
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ معاملہ حل نہ ہونے کے بعد پولیس نے مقدس شخصیات کی توہین کے قانون کی دفعہ 298/اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔ انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ یہ مقدمہ توہین مذہب کے قانون کے تحت درج کیا گیا۔
دریں اثناء جھنگ بار ایسوسی ایشن کے صدر مہر محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا لدھیانوی کو انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ مظاہرے میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے وکلا شامل تھے اور کسی نے بھی حضرت عمر کی شان میں دانستہ گستاخی نہیں کی۔
"نام کی مماثلت سے کوئی نعرہ لگ گیا جس کو انھوں نے غلط سمجھا، لیکن ہم نے انھیں تسلی کرا دی ہے کہ یہ کسی نے دانستہ نہیں کیا نادانستہ طور پر نام کی مماثلت سے یہ ہوا تو ان کی بھی تسلی ہو گئی۔ ہم نے اس پرچے کے جو مستغیث ہیں انھیں اور مولانا احمد لدھیانوی کو اس کی تسلی کرائی اور وہ مطمئن ہو گئے ہیں۔"
ضلعی پولیس کے سربراہ ذیشان اصغر کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول وکیل پر تشدد کرنے والے پولیس انسپکٹر کو پہلے ہی معطل کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں شیعہ اور سنی فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث اکثر ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بعد ازاں تشدد کی صورت اختیار کرتے ہوئے ہلاکتوں کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔
ملک میں مذہبی اکابرین اور حکومتی عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں رہنے والے ضلع جھنگ میں یہ مقدمہ سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی درخواست پر درج کیا گیا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایک پولیس انسپکٹر کےخلاف مظاہرہ کرنے والے وکلا، جن میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے، نے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے نام کی مبینہ طور پر توہین کی۔
درخواست گزار کے مطابق مظاہرین کے اس اقدام سے ان کے جذبات مجروح ہوئے۔
جھنگ کے ضلع پولیس افسر ذیشان اصغر نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دراصل یہ معاملہ ایک پولیس انسپکٹر عمردراز کی طرف سے ایک وکیل کو زدو کوب کرنے کے بعد شروع ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا اس پولیس افسر کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے دفتر کے قریب پہنچے جہاں اہلسنت والجماعت کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔
ذیشان اصغر نے بتایا کہ مظاہرین مقامی زبان میں پولیس انسپکٹر کے نام کا ’عرف‘ پکارتے ہوئے نعرے بازی کر رہے تھے۔
"اس پر مولانا کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے ہمیں دیکھ کر یہ نعرے لگائے۔۔۔ ہم نے انھیں بتایا کہ اس کو اصل واقعے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور یہ پولیس انسپکٹر کا نام لے کر نعرے لگا رہے تھے۔"
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ معاملہ حل نہ ہونے کے بعد پولیس نے مقدس شخصیات کی توہین کے قانون کی دفعہ 298/اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔ انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ یہ مقدمہ توہین مذہب کے قانون کے تحت درج کیا گیا۔
دریں اثناء جھنگ بار ایسوسی ایشن کے صدر مہر محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا لدھیانوی کو انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ مظاہرے میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے وکلا شامل تھے اور کسی نے بھی حضرت عمر کی شان میں دانستہ گستاخی نہیں کی۔
"نام کی مماثلت سے کوئی نعرہ لگ گیا جس کو انھوں نے غلط سمجھا، لیکن ہم نے انھیں تسلی کرا دی ہے کہ یہ کسی نے دانستہ نہیں کیا نادانستہ طور پر نام کی مماثلت سے یہ ہوا تو ان کی بھی تسلی ہو گئی۔ ہم نے اس پرچے کے جو مستغیث ہیں انھیں اور مولانا احمد لدھیانوی کو اس کی تسلی کرائی اور وہ مطمئن ہو گئے ہیں۔"
ضلعی پولیس کے سربراہ ذیشان اصغر کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول وکیل پر تشدد کرنے والے پولیس انسپکٹر کو پہلے ہی معطل کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں شیعہ اور سنی فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث اکثر ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بعد ازاں تشدد کی صورت اختیار کرتے ہوئے ہلاکتوں کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔
ملک میں مذہبی اکابرین اور حکومتی عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔