چیف جسٹس نے پولیس کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تضاد ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حقائق بیان نہیں کیے گئے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے لاہور میں مسیحی بستی میں گھروں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے پر پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے لاہور کے علاقے بادامی باغ میں ایک عیسائی لڑکے ساجن مسیح کی طرف سے مبینہ طور پر توہین رسالت کے ارتکاب پر مشتعل افراد نے مسیحی بستی جوزف کالونی میں 100 سے زائد گھروں اور املاک کو نذر آتش کر دیا تھا۔
یہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کی بستی تھی اور اس واقعے کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں مسیحی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس پر شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔
سپریم کورٹ نے اس واقعے کا از خود نوٹس لے رکھا تھا اور بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس پر مختصر حکم سنایا۔
چیف جسٹس نے پولیس کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تضاد ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حقائق بیان نہیں کیے گئے۔
عدالت عظمیٰ نے جوزف کالونی کے واقعے کے پس پردہ حقائق اور ذمہ داران کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
دریں اثناء وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جوزف کالونی کے واقعے پر ایک بار پھر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عیسائی ملک کے برابر کے شہری ہیں اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ ان کے بقول حکومت کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔
’’میں اپنے مسیحی بہن بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر ان کے نقصانات کا ازالہ کرے گی اور اس غیر انسانی فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی۔‘‘
وزیراعظم نے علماء سے درخواست کی کہ وہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے حکومت کی مدد کریں کیونکہ ایسے پرتشدد واقعات عالمی برادری میں پاکستان کے منفی تشخص کو ابھارنے کا باعث بنتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے لاہور کے علاقے بادامی باغ میں ایک عیسائی لڑکے ساجن مسیح کی طرف سے مبینہ طور پر توہین رسالت کے ارتکاب پر مشتعل افراد نے مسیحی بستی جوزف کالونی میں 100 سے زائد گھروں اور املاک کو نذر آتش کر دیا تھا۔
یہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کی بستی تھی اور اس واقعے کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں مسیحی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس پر شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔
سپریم کورٹ نے اس واقعے کا از خود نوٹس لے رکھا تھا اور بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس پر مختصر حکم سنایا۔
چیف جسٹس نے پولیس کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تضاد ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حقائق بیان نہیں کیے گئے۔
عدالت عظمیٰ نے جوزف کالونی کے واقعے کے پس پردہ حقائق اور ذمہ داران کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
دریں اثناء وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جوزف کالونی کے واقعے پر ایک بار پھر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عیسائی ملک کے برابر کے شہری ہیں اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ ان کے بقول حکومت کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔
’’میں اپنے مسیحی بہن بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر ان کے نقصانات کا ازالہ کرے گی اور اس غیر انسانی فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی۔‘‘
وزیراعظم نے علماء سے درخواست کی کہ وہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے حکومت کی مدد کریں کیونکہ ایسے پرتشدد واقعات عالمی برادری میں پاکستان کے منفی تشخص کو ابھارنے کا باعث بنتے ہیں۔