خودکش بم حملہ راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ سے کچھ ہی فاصلے پر واقعہ آر اے بازار کے علاقے میں ہوا، ہلاک ہونے والوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پیر کی صبح ایک خودکش بم دھماکے میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت کم از کم 13 افراد ہلاک اور 15 سے زائد زخمی ہو گئے۔
یہ دھماکا راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ سے کچھ ہی فاصلے پر واقعہ آر اے بازار کے علاقے میں ہوا۔
جب دھماکا ہوا تو اس وقت عینی شاہدین کے مطابق آر اے بازار کے علاقے میں خاصا رش تھا کیوں کہ لوگ اپنے دفاتر جب کہ طالب علم تعلیمی اداروں کو جا رہے تھے اور ہلاک و زخمی ہونے والوں میں طالب علم اور راہ گیر بھی شامل ہیں۔
راولپنڈی میں سپریٹنڈنٹ پولیس ہارون جوئیہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں بتایا کہ خودکش حملہ آور کے بعض اعضاء ملے ہیں جن کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
’’فوج کی ایک چوکی بھی ہے اور اسے لگ بھگ ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر یہ دھماکا ہوا ہے۔ ہم شواہد جمع کر رہے ہیں تاکہ تحقیقات میں مدد مل سکے۔‘‘
ضلعی انتظامیہ کے اعلٰی عہدیدار ساجد ظفر نے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے جس جگہ دھماکا کیا وہاں لوگ اکٹھے کھڑے تھے۔
خودکش بم دھماکے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور میڈیا کے نمائندوں کو جائے وقوع پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان ’ٹی ٹی پی‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ذرائع ابلاغ کے نام اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’حکومت اور سیکورٹی فورسز پر ایسے حملے جاری رکھے جائیں گے۔‘‘
زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
دھماکے سے کئی قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین نے راولپنڈی میں خودکش بم حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
اس بم دھماکے سے قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع بنوں میں اتوار کی صبح سکیورٹی فورسز کے قافلے میں شامل ایک گاڑی میں بم دھماکے سے کم از کم 20 اہلکار ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
بنوں میں دہشت گرد حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سوئیٹزلینڈ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا جہاں اُنھیں ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔
یہ دھماکا راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ سے کچھ ہی فاصلے پر واقعہ آر اے بازار کے علاقے میں ہوا۔
جب دھماکا ہوا تو اس وقت عینی شاہدین کے مطابق آر اے بازار کے علاقے میں خاصا رش تھا کیوں کہ لوگ اپنے دفاتر جب کہ طالب علم تعلیمی اداروں کو جا رہے تھے اور ہلاک و زخمی ہونے والوں میں طالب علم اور راہ گیر بھی شامل ہیں۔
راولپنڈی میں سپریٹنڈنٹ پولیس ہارون جوئیہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں بتایا کہ خودکش حملہ آور کے بعض اعضاء ملے ہیں جن کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
’’فوج کی ایک چوکی بھی ہے اور اسے لگ بھگ ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر یہ دھماکا ہوا ہے۔ ہم شواہد جمع کر رہے ہیں تاکہ تحقیقات میں مدد مل سکے۔‘‘
ضلعی انتظامیہ کے اعلٰی عہدیدار ساجد ظفر نے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے جس جگہ دھماکا کیا وہاں لوگ اکٹھے کھڑے تھے۔
خودکش بم دھماکے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور میڈیا کے نمائندوں کو جائے وقوع پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان ’ٹی ٹی پی‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ذرائع ابلاغ کے نام اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’حکومت اور سیکورٹی فورسز پر ایسے حملے جاری رکھے جائیں گے۔‘‘
زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
دھماکے سے کئی قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین نے راولپنڈی میں خودکش بم حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
اس بم دھماکے سے قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع بنوں میں اتوار کی صبح سکیورٹی فورسز کے قافلے میں شامل ایک گاڑی میں بم دھماکے سے کم از کم 20 اہلکار ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
بنوں میں دہشت گرد حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سوئیٹزلینڈ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا جہاں اُنھیں ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔