پاکستان کے شمال مغرب میں اتوار کی صبح سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر بم حملے میں کم ازکم 20 اہلکار ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔
حکام کے مطابق خیبرپختونخواہ کے ضلع بنوں میں رزمک گیٹ کے قریب سکیورٹی فورسز کے قافلے میں شامل ایک گاڑی میں نصب بارودی مواد میں یہ دھماکا ہوا۔
بنوں کے ضلعی پولیس افسر محمد اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ معمول کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کے بنوں سے شمالی وزیرستان منتقل ہونے کا عمل جاری تھا یہ اس دوران یہ واقعہ پیش آیا۔
’’کرفیو لگایا جاتا ہے بنوں سے میران شاہ کے درمیان ان (سکیورٹی فورسز) کے لیے سرکاری اور پرائیوٹ گاڑیاں بھی کرائے پر لی جاتی ہیں۔ تو ایک گاڑی جو باہر سے لائی گئی تھی اس میں یہ دھماکا ہوا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کی جارہی ہیں کہ یہ گاڑی کہاں سے اور کس نے حاصل کی تھی اور اس کا مالک کون ہے۔
سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور زخمیوں کو فوری طور پر فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اکثر کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
بنوں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ملحق ہے اور یہاں پہلے بھی شدت پسند سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں تاہم رواں سال سکیورٹی فورسز پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے جب کہ وفاقی وزیرداخلہ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔
ایک روز قبل ہی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا تھا کہ طالبان کے مختلف گروپس سے بات چیت ہورہی ہے اور امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شدت پسندوں سے بات چیت کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
تحریک طالبان حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق خیبرپختونخواہ کے ضلع بنوں میں رزمک گیٹ کے قریب سکیورٹی فورسز کے قافلے میں شامل ایک گاڑی میں نصب بارودی مواد میں یہ دھماکا ہوا۔
بنوں کے ضلعی پولیس افسر محمد اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ معمول کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کے بنوں سے شمالی وزیرستان منتقل ہونے کا عمل جاری تھا یہ اس دوران یہ واقعہ پیش آیا۔
’’کرفیو لگایا جاتا ہے بنوں سے میران شاہ کے درمیان ان (سکیورٹی فورسز) کے لیے سرکاری اور پرائیوٹ گاڑیاں بھی کرائے پر لی جاتی ہیں۔ تو ایک گاڑی جو باہر سے لائی گئی تھی اس میں یہ دھماکا ہوا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کی جارہی ہیں کہ یہ گاڑی کہاں سے اور کس نے حاصل کی تھی اور اس کا مالک کون ہے۔
سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور زخمیوں کو فوری طور پر فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اکثر کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
بنوں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ملحق ہے اور یہاں پہلے بھی شدت پسند سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں تاہم رواں سال سکیورٹی فورسز پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے جب کہ وفاقی وزیرداخلہ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔
ایک روز قبل ہی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا تھا کہ طالبان کے مختلف گروپس سے بات چیت ہورہی ہے اور امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شدت پسندوں سے بات چیت کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
تحریک طالبان حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔