پاکستان کے دو شہروں اسلام آباد اور لاہور سے رواں ماہ کے اوائل میں لاپتا ہونے والے پانچ ’بلاگرز‘ تاحال بازیاب نہیں ہو سکے ہیں اور اُن کی سلامتی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ان سماجی کارکنوں کی بازیابی کے لیے سول سوسائٹی کے نمائندے سراپا احتجاج ہیں اور پیر کو بھی اسلام آباد میں ’نیشنل پریس کلب‘ کے باہر انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے درجنوں کارکن جمع ہوئے۔
ان افراد نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتا افراد کی بازیابی کے حق میں تحریریں درج تھیں۔
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے پانچ لاپتا کارکنوں میں سلمان حیدر، وقاص گورایہ، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور ثمر عباس شامل ہیں۔
ایک سماجی کارکن فرزانہ باری بھی پیر کو کیے گئے مظاہرے میں شریک تھیں، اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تو اُن لوگوں کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جو ’لاپتا‘ افراد کی بازیابی کے لیے صدا بلند کر رہے ہیں۔
’’آج بھی ہم اسی سلسلے میں احتجاج کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔۔۔ حکومت کی یا جس کی بھی یہ پالیسی ہے، کوئی تو ایسے افراد کو اٹھا رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اس مسئلے کو دیکھے اور اس کا حل تلاش کیا جائے۔‘‘
لاپتا افراد کی گمشدگی کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹس یعنی سوشل میڈیا پر ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں جن میں یہ الزام لگایا گیا کہ لاپتا ہونے والے افراد ’’توہین مذہب‘‘ کے مرتکب ہوئے۔
ایسی خبروں کو لاپتا ’بلاگرز‘ کے اہل خانہ نے نا صرف سختی سے رد کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ایسی بے بنیاد خبروں سے اُن کے لیے بھی خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جب کہ دوسری جانب پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے لاپتا ہونے والے سماجی کارکنوں پر مقدمات قائم کرنے سے متعلق میڈیا رپورٹس خصوصاً سوشل میڈیا پر جاری ’’پراپیگنڈے‘‘ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ایسی خبروں میں ’’قطعاً کوئی صداقت نہیں‘‘۔
وزیر داخلہ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا کہ ’’ایسی خبریں مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ ہیں اور بعض عناصر کی جانب سے اس معاملے میں غلط معلومات کی تشہیر کا مقصد معاملے کو مزید الجھانا ہے۔‘‘