ایک امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جنرل' نے دعویٰ کیا ہے کہ 27 نومبر کو مہمند ایجنسی کے علاقے میں نیٹو کو فضائی حملے کی اجازت پاکستانی حکام نے دی تھی جو وہاں اپنی چوکیوں کی موجودگی سے لاعلم تھے۔
تاہم پاکستان نے ان اطلاعات کو مسترد کردیا ہے۔
اخبار نے جمعہ کو شائع کی گئی ایک رپورٹ میں نامعلوم امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ واقعہ سے قبل امریکی و افغان کمانڈوز کا ایک فوجی دستہ علاقے میں طالبان شدت پسندوں کی تلاش میں مصروف تھا جب اس پر پاکستان کے سرحدی علاقے مہمند ایجنسی کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
امریکی حکام کےبقول کاروائی میں مصروف کمانڈوز نے اس فائرنگ کو شدت پسندوں کا حملہ سمجھا تھا تاہم بعد میں پتا چلا کہ یہ فائرنگ پاکستانی فوجی اہلکاروں کی جانب سے کی گئی تھی جنہوں نے علاقے میں عارضی چوکی قائم کر رکھی تھی۔
اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں موجود امریکی حکام کے ابتدائی بیانات سے پتا چلتا ہے کہ فائرنگ کے واقعے کے بعد امریکی کمانڈوز نے فضائی مدد طلب کرنے سےقبل پاک-افغان سرحد کے مشترکہ نگراں سینٹر سے رابطہ قائم کیا تھا جہاں سے بتایا گیا کہ علاقہ میں پاکستانی فوجی دستے موجود نہیں ہیں۔
'وال اسٹریٹ جنرل' نے کہا ہے کہ امریکی حکام اعتراف کر رہے ہیں کہ اس معاملے میں دونوں فریقوں سے غلطی ہوئی ہے۔
واقعہ کے ردِ عمل میں پاکستان نے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو رسد کی ترسیل معطل کرتے ہوئے آئندہ ہفتے افغانستان کے مستقبل پر جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی حکام کا موقف ہے کہ مذکورہ معلومات کمانڈو دستے کے ارکان سے کی گئی ابتدائی تفتیش کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہیں اور تحقیقات میں پیش رفت کے نتیجے میں اس میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔
'وال اسٹریٹ جنرل' کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کرنے والے امریکی فوجی افسران کے پاس اس حوالے سے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے 23 دسمبر تک کا وقت ہے۔
دریں اثنا نیٹو حملے پر پاکستان میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا 'سینیٹ' نے جمعہ کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں ہونے والی کسی بھی جارحیت کا پوری قوت سے جواب دے۔
اسی دوران پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی چوکیوں پر نیٹو کے حملے کے دوران چوکیوں کا کمانڈ سینٹر سے مواصلاتی رابطہ منقطع ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی جانب سے فوری جوابی کاروائی نہ کی جاسکی۔
پاکستان کا موقف ہے کہ کہ نیٹو حملہ دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ کاروائی تھی جس سے قبل پاکستانی چوکیوں کی جانب سے کوئی فائرنگ نہیں کی گئی تھی۔ اس واقعہ میں دو افسران سمیت 24 پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔