پاکستان نے افغانستان کے اِن الزامات کی تردید کی ہے کہ اُن کی فوجوں نے افغانستان کے کنڑ اور ننگرہار صوبوں میں سینکڑوں راکٹ داغے ہیں جس کے نتیجے میں درجنوں شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔
لیکن کابل سے سیاسی تجزیہ کار ولی اللہ رحمانی کا کہنا ہے کہ افغانستان پر اِس طرح کی فائرنگ کرکے پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ اُن کی سرزمین پر امریکی حملوں کو روکا جائے۔
رحمانی کا کہنا تھا کہ افغانستان نے پاکستان سے کہا ہے کہ اِن حملوں کو بند کیا جائے۔
اُدھر منگل کے دِن کابل میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان سہ فریقی کانفرنس میں اِن حملوں کو بند کرنے پر خصوصی زور دیا جائے گا۔
رحمانی، جِن کا تعلق انسٹی ٹیوٹ فور اسٹریٹجک اسٹڈیز سے ہے، اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان یہ حملے بند کردے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہوجائیں گے اور افغانستان کی طرف سے کوئی جوابی ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔
درسری طرف، افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے رحمانی سے اختلاف ِ رائے کرتے ہوئے کہا کہ تین ہفتوں سے افغانستان کی طرف سے دیر اور مہمند میں دراندازی جاری ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ دیر کے واقعے میں 27پاکستانی فوجی ہلاک اور کافی زخمی ہوئے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ یہ لوگ پاکستانی تھے جو سوات، دیر اور باجوڑ میں فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے بھاگ نکلے تھےاور افغانستان میں پناہ لےرکھی تھی۔ پھر باجوڑ میں بھی دراندازی کی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ اُس کے جواب میں کچھ راکٹ برسائے گئے ہوں۔
جب اُن سے رحمانی کے الزام پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو رستم شاہ مہمند نے بتایا کہ پاکستانی حکومت میں ایسی کوئی طاقت اور سکت نہیں ہے کہ وہ کوئی بات منوانے کے لیے امریکہ کو مجبور کر سکے ۔ اِس کے برعکس، اُن کا کہنا تھا کہ نیٹو کی رسد جاری ہے، سرحد پر تعیناتی جاری ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: