فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ اکثر خواتین اس مرض سے متعلق منفی سماجی رویوں کی وجہ سے بھی اس کی تشخیص و علاج کے لیے بات نہیں کرتیں جسے ان کے بقول تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں صحت، تعلیم اور انسانی حقوق کے ماہرین نے ایک بار پھر خواتین میں چھاتی کے سرطان سے بچاؤ اور اس کے علاج سے متعلق مؤثر اور بھرپور آگاہی مہم چلانے پر زور دیا ہے تاکہ اس مرض سے متاثر ہونے والوں کی شرح کو کم کیا جا سکے۔
دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی وشعور اجاگر کرنے کے لیے پنکتوبر کے نام سے منایا جاتا ہے۔
اس مہینے کے اختتام پر بدھ کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت ’یونیسکو‘ نے دیگر متعلقہ تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کے شرکا کا کہنا تھا کہ خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح کو اس مرض کے بارے میں آگاہی پیدا کر کے قابل ذکر حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اس مرض سے بچاؤ کے لیے شعور بیدار کرنے والی پنک ربن سوسائٹی نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق پاکستان میں نو میں سے ایک خاتون کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے جو کہ ایشیا میں اس مرض کی سب سے زیادہ شرح ہے۔
اس تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار خواتین اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
چھاتی کے سرطان کی علامات میں چھاتی یا اس کے علاوہ بغل کی طرف بھی کوئی گلٹی نمودار ہو سکتی ہے اور جلد پر خراشیں بھی اس کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔ تاہم طبی ماہرین کے مطابق ضروری نہیں ایسی تمام گلٹیاں چھاتی کے سرطان میں تبدیل ہوں لیکن ان کے نمودار ہوتے ہی معالج سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
تقریب میں شریک سابق نگراں وفاقی وزیر اور طبی ماہر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ احتیاطی تدابیر کے علاوہ اس مرض کی بروقت تشخیص سے بھی بہت سی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
’’خواتین اپنا وزن کم رکھیں، انھیں پتا ہو کہ ان کے لیے کیا خوراک ہونی چاہیے اگر ان کے خاندان کی دو خواتین کو بھی چھاتی کا سرطان ہوچکا ہو تو پھر ان کے لیے بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ انھیں پتا ہونا چاہیے کہ خود سے کیسے اسے مانیٹر کرنا ہے۔ اگر یہ سب معلومات ہوں تو رسک بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔‘‘
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں قومی اسمبلی کی رکن اور سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا بھی شامل تھیں جو خود بھی اس مرض سے شفایاب ہوچکی ہیں۔
انھوں نے خواتین کی بنیادی معلومات اور آگاہی سے دوری کو اس مرض میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا۔
فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ اکثر خواتین اس مرض سے متعلق منفی سماجی رویوں کی وجہ سے بھی اس کی تشخیص و علاج کے لیے بات نہیں کرتیں جسے ان کے بقول تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی وشعور اجاگر کرنے کے لیے پنکتوبر کے نام سے منایا جاتا ہے۔
اس مہینے کے اختتام پر بدھ کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت ’یونیسکو‘ نے دیگر متعلقہ تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کے شرکا کا کہنا تھا کہ خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح کو اس مرض کے بارے میں آگاہی پیدا کر کے قابل ذکر حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اس مرض سے بچاؤ کے لیے شعور بیدار کرنے والی پنک ربن سوسائٹی نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق پاکستان میں نو میں سے ایک خاتون کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے جو کہ ایشیا میں اس مرض کی سب سے زیادہ شرح ہے۔
اس تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار خواتین اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
چھاتی کے سرطان کی علامات میں چھاتی یا اس کے علاوہ بغل کی طرف بھی کوئی گلٹی نمودار ہو سکتی ہے اور جلد پر خراشیں بھی اس کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔ تاہم طبی ماہرین کے مطابق ضروری نہیں ایسی تمام گلٹیاں چھاتی کے سرطان میں تبدیل ہوں لیکن ان کے نمودار ہوتے ہی معالج سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
تقریب میں شریک سابق نگراں وفاقی وزیر اور طبی ماہر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ احتیاطی تدابیر کے علاوہ اس مرض کی بروقت تشخیص سے بھی بہت سی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
’’خواتین اپنا وزن کم رکھیں، انھیں پتا ہو کہ ان کے لیے کیا خوراک ہونی چاہیے اگر ان کے خاندان کی دو خواتین کو بھی چھاتی کا سرطان ہوچکا ہو تو پھر ان کے لیے بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ انھیں پتا ہونا چاہیے کہ خود سے کیسے اسے مانیٹر کرنا ہے۔ اگر یہ سب معلومات ہوں تو رسک بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔‘‘
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں قومی اسمبلی کی رکن اور سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا بھی شامل تھیں جو خود بھی اس مرض سے شفایاب ہوچکی ہیں۔
انھوں نے خواتین کی بنیادی معلومات اور آگاہی سے دوری کو اس مرض میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا۔
فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ اکثر خواتین اس مرض سے متعلق منفی سماجی رویوں کی وجہ سے بھی اس کی تشخیص و علاج کے لیے بات نہیں کرتیں جسے ان کے بقول تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔