اسلام آباد —
خواتین میں چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی کے لیے سرگرم عمل ایک غیر سرکاری تنظیم نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں نوجوان لڑکیوں میں اس سرطان کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پنک ربن نامی اس تنظیم کے سربراہ عمر آفتاب کا کہنا ہے پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہاں نو میں سے ایک خاتون کو اس مرض کا خطرہ لاحق ہے۔
انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار خواتین اس مرض میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
دنیا بھرمیں اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے پنکتوبر کے طور پر منایا جاتا ہے اور عمر آفتاب کے مطابق اسی سلسلے میں ان کی تنظیم دیگر اداروں کے اشتراک سے ایک مہم کے ذریعے ملک بھر میں تقریباً ایک لاکھ لڑکیوں تک یہ پیغام و معلومات پہنچائے گی۔
’’بدقسمتی سے یہ نوجوان بچیوں میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے تو ہم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مل کر ایک آگاہی مہم شروع کی جس کے دو مقاصد ہیں کہ ایک تو ہم بچیوں کو اس خطرے سے آگاہ کر سکیں اور دوسرا ان کے ذریعے ان کی ماؤں تک یہ آگاہی پہنچائیں۔ پچھلے ایک سال میں ہم نے ملک کے پانچ مختلف شہروں میں 87 کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اڑھائی لاکھ بچیوں تک یہ پیغام پہنچایا۔‘‘
چھاتی کے سرطان کی علامات میں چھاتی یا اس کے علاوہ بغل کی طرف بھی کوئی گلٹی نمودار ہو سکتی ہے اور جلد پر خراشیں بھی اس کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔ تاہم طبی ماہرین کے مطابق ضروری نہیں ایسی تمام گلٹیاں چھاتی کے سرطان میں تبدیل ہوں لیکن ان کے نمودار ہوتے ہی معالج سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
عمر آفتاب کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس مرض سے ہونے والی اموات میں اضافے کی وجوہات میں بعض سماجی رویے بھی شامل ہیں۔
’’پاکستان میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت نے ایسی کوئی برائی کی ہے جس سے اسے یہ بیماری لگ گئی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ بے تحاشہ کیسز میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد خواتین اپنے گھر والوں سے بھی یہ چھپاتی ہیں جس سے یہ صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔‘‘
اس سرطان کی وجوہات میں عمر آفتاب کے مطابق خواتین کی خوراک اور ان کا غیر صحت مندانہ طرز زندگی بھی شامل ہیں۔
انھوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ یہ سرطان صرف شادی شدہ اور 40 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ہوتا ہے۔
پنک ربن سوسائٹی کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ جیسے ہی اس طرح کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر معالج سے رجوع کر کے اس کی تشخیص اور علاج کراویا جائے ورنہ بیماری بڑھ جانے کی صورت میں علاج پیچیدہ ہو سکتا ہے اور مریضہ زندگی کی بازی بھی ہار سکتی ہے۔
پنک ربن نامی اس تنظیم کے سربراہ عمر آفتاب کا کہنا ہے پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہاں نو میں سے ایک خاتون کو اس مرض کا خطرہ لاحق ہے۔
انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار خواتین اس مرض میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
دنیا بھرمیں اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے پنکتوبر کے طور پر منایا جاتا ہے اور عمر آفتاب کے مطابق اسی سلسلے میں ان کی تنظیم دیگر اداروں کے اشتراک سے ایک مہم کے ذریعے ملک بھر میں تقریباً ایک لاکھ لڑکیوں تک یہ پیغام و معلومات پہنچائے گی۔
’’بدقسمتی سے یہ نوجوان بچیوں میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے تو ہم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مل کر ایک آگاہی مہم شروع کی جس کے دو مقاصد ہیں کہ ایک تو ہم بچیوں کو اس خطرے سے آگاہ کر سکیں اور دوسرا ان کے ذریعے ان کی ماؤں تک یہ آگاہی پہنچائیں۔ پچھلے ایک سال میں ہم نے ملک کے پانچ مختلف شہروں میں 87 کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اڑھائی لاکھ بچیوں تک یہ پیغام پہنچایا۔‘‘
چھاتی کے سرطان کی علامات میں چھاتی یا اس کے علاوہ بغل کی طرف بھی کوئی گلٹی نمودار ہو سکتی ہے اور جلد پر خراشیں بھی اس کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔ تاہم طبی ماہرین کے مطابق ضروری نہیں ایسی تمام گلٹیاں چھاتی کے سرطان میں تبدیل ہوں لیکن ان کے نمودار ہوتے ہی معالج سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
عمر آفتاب کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس مرض سے ہونے والی اموات میں اضافے کی وجوہات میں بعض سماجی رویے بھی شامل ہیں۔
’’پاکستان میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت نے ایسی کوئی برائی کی ہے جس سے اسے یہ بیماری لگ گئی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ بے تحاشہ کیسز میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد خواتین اپنے گھر والوں سے بھی یہ چھپاتی ہیں جس سے یہ صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔‘‘
اس سرطان کی وجوہات میں عمر آفتاب کے مطابق خواتین کی خوراک اور ان کا غیر صحت مندانہ طرز زندگی بھی شامل ہیں۔
انھوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ یہ سرطان صرف شادی شدہ اور 40 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ہوتا ہے۔
پنک ربن سوسائٹی کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ جیسے ہی اس طرح کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر معالج سے رجوع کر کے اس کی تشخیص اور علاج کراویا جائے ورنہ بیماری بڑھ جانے کی صورت میں علاج پیچیدہ ہو سکتا ہے اور مریضہ زندگی کی بازی بھی ہار سکتی ہے۔