پاکستان میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بین الاقوامی اثاثہ بازیافت فرم براڈ شیٹ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کر دیا ہے۔
لیگی رہنما احسن اقبال کہتے ہیں کہ ایک ایسی شخصیت کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ بنانا جو پاناما کیس کے ساتھ منسلک تھا، ہمیں منظور نہیں ہے۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے دعوی کیا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید بہت متعبر ججز ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت براڈ شیٹ معاملہ سے پانامہ کیس جیسا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سابق جج شیخ عظمت سعید کو براڈ شیٹ کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے، جس کا اعلان وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے اپنے ٹویٹ میں کیا۔ کمیٹی کے باقی ممبران کا تقرر جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے کمیٹی کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید کو دینے پر اعتراض کیا ہے۔ لیگی رہنما احسن اقبال نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت براڈشیٹ اسکینڈل کی تحقیقات میں سنجیدہ تھی تو سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن بناتی۔ جسٹس (ر) عظمت سعید کی عمران خان سے اس قدر قربت ہے کہ وہ شوکت خانم اسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی ہیں، اپنا قاضی، اپنی مرضی کے فیصلے اور اپنی کلین چٹ ایسا مذاق کرنا ہے تو عوام کو احمق نہ سمجھیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ماضی میں مشرف حکومت نے نواز شریف کے خلاف کیسز بنانے کے لیے براڈ شیٹ کی مدد حاصل کی اور اب موجودہ حکومت دوبارہ مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنانے کی خاطر غیر ملکی کمپنی کو اربوں روپے ادا کر رہی ہے۔ براڈشیٹ کو ادائیگی کرنے کے لیے ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں فیصلہ سے پہلے ہی بھاری رقم رکھ دی گئی تھی اور اس کا مقصد صرف اس کمپنی کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس تمام معاملہ کی تحقیقات ضروری ہیں لیکن شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں ہونے والی انکوائری پر ہم یقین نہیں رکھتے۔
اس صورت حال کے بارے میں تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ حکومت اس معاملہ سے پانامہ طرز کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اپنی مرضی کے افراد کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس عظمت سعید شیخ بطور وکیل اور جج ایک کریڈیبل شخصیت ہیں، لیکن اگر اپوزیشن کو ان پر اعتراض ہو تو انہیں خود کو اس سے الگ کر لینا چاہیے۔
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملہ کو پانامہ طرز کی تحقیقات چاہتی ہے کیونکہ نوازشریف کی ایون فیلڈ اور دیگر جائیدادیں موجود ہیں۔ براڈ شیٹ کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان جائیدادوں کی قیمت کے حساب سے انہیں ادائیگی کی جائے ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے لیے مسائل کم نہیں ہوئے۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اپوزیشن کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ براڈشیٹ نے جائیدادوں کی نشاہدہی کی اور سوال اٹھایا کہ اس کے باوجود کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ انکوائری کمیشن کے ٹی او ارز طے کیے جا چکے ہیں۔ کمیشن میں کوئی حکومتی وزیر شامل نہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اس معاملہ میں بلاوجہ کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آئے تو وہ جج ٹھیک وگرنہ جج ٹھیک نہ ہو گا۔ جسٹس شیخ کے حوالے سے ایسے الزامات درست نہیں ہیں۔
ایرانی نژاد برطانوی وکیل کاوے موسوی نے تصدیق کی کہ حکومت پاکستان سے حاصل کیے گئے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز اب آئل آف مین کے ایک اکاؤنٹ میں ہیں جہاں یہ کمپنی 2000 سے رجسٹرڈ ہے۔
اس معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ اسکینڈل پانامہ ٹو ہو گا۔ جب کہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ میں ملی بھگت سے اربوں روپے غیرملکی کمپنی کو دیدیے گئے۔
تحقیقاتی کمیٹی کیا کیا تفتیش کرے گی؟؟
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی کو پانچ ذمہ داریاں دی گئی ہیں، جن میں سب سے پہلا معاملہ براڈ شیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری فرمز کے انتخاب کا ہے، ان فرمز کے حوالے سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ معاہدہ سے ایک ماہ قبل یہ کمپنی رجسٹر ہوئی اور اس کے بعد معاہدہ ہوا۔ یہ معاہدہ کس طرح ہوا ، کمیٹی اس بات کی تفتیش کرے گی۔
عظمت سعید کی کمیٹی اس بات کی بھی تحقیقات کرے گی کہ براڈ شیٹ کے ساتھ سال 2003 میں کن وجوہات کی بنا پر معاہدہ منسوخ کیا گیا۔ اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ کو جو ٹارگٹس دیے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہو سکے لہذا یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس حوالے سے اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ براڈ شیٹ کے ساتھ اس وقت کیا تحفظات کے لیے خطوط لکھے گئے اور معاہدہ کی منسوخی کس میرٹ پر ہوئی۔
کمیٹی اس بات کی بھی تحقیق کرے گی کہ دونوں فرمز کے ساتھ معاملات طے ہونے اور سال 2008 میں ادائیگیوں کے بعد بھی عدالتوں میں ان کے کیسز کس طرح سامنے آئے۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ نیب کی ملی بھگت سے غلط افراد کو رقوم فراہم کی گئیں۔ کمیٹی اس بارے میں بھی تحقیقات کرے گی۔
تحقیقاتی کمیٹی کورٹ آف انٹرنیشنل آربٹریشن میں پاکستان کا کیس پیش کرنے اور قانونی صورت حال کا بھی جائزہ لے گی۔ اس سلسلہ میں ثالثی عدالت میں پیش ہونے والے پاکستانی وکلا اور وہاں دیے جانے والے فیصلوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
اس کمیٹی کا آخری ایجنڈا حالیہ دنوں میں دیے گئے پیسوں کے حوالے سے تحقیق ہے، جس کے بارے میں حکومت اور نیب پر مختلف الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ کمیٹی اس بارے میں حکومتی شخصیات سے پوچھ گچھ بھی کرسکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کمیٹی کی تحقیقات کے حوالے سے تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کمیٹی کے ایجنڈہ میں براڈ شیٹ کی طرف سے دی گئی معلومات شامل نہیں ہیں لیکن جب ادائیگیوں کا معاملہ سامنے آئے گا تو لازمی طور پر وہ کیسز بھی سامنے آئیں گے جن کی وجہ سے ادائیگی کی گئی لہذا حکومت اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔
براڈ شیٹ کا معاملہ ہے کیا؟؟
قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2000 میں برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ جس کے تحت انہیں 200 سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے۔ ان سب کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ جس پر براڈشیٹ کمپنی نے کام شروع کیا اور دی گئی فہرست میں سے مبینہ طور پر کچھ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
اس فہرست میں سب سے پہلا نام جس سیاسی رہنما کا آیا وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے آفتاب احمد خان شیر پاؤ تھے، جن کے امریکہ میں موجود اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالرز کا علم ہوا۔ اس پر ان کے خلاف پاکستان میں کارروائی شروع ہوئی اور آفتاب شیر پاؤ کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن یہ رقم واپس آنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا۔
دوسرا اہم نام آبدوزوں کے سودے میں بھاری کمیشن لے کر بحری فوج کے سربراہ کے عہدہ سے فارغ ہونے والے نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کا تھا۔ ان کے اکاؤنٹس میں بھی 70 لاکھ ڈالرز سے زائد کا انکشاف ہوا۔
اس پر قومی احتساب بیورو نے ان کے خلاف کیس بنایا اور امریکی حکومت کی مدد سے انہیں پاکستان واپس لایا گیا۔ جہاں ان کے اعزازات تو واپس ہو گئے لیکن پلی بارگین کے ذریعے وہ معمولی ادائیگی کے بعد بیرون ملک چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کی قیمت موجودہ حکومت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔