’دھاندلی‘ کے نئے طریقہ کار سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے: عمران خان

فائل فوٹو

عمران خان نے کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ ’’آخری وقت پر کتنے ووٹ این اے 122 سے باہر نکالے گئے جس کے بعد ہم الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے۔‘‘

لاہور سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے این اے 122 میں ضمنی انتخاب کا نتیجہ آنے کے بعد اپنے پہلے ردعمل میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے کہا کہ اُن کی پارٹی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے مبینہ دھاندلی کے طریقوں کے لیے تیار نہیں تھی۔

اتوار کو مسلم لیگ نواز کے امیدوار ایاز صادق اور ’پی ٹی آئی‘ کے امیدوار عبدالعلیم خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا جس میں ایاز صادق دو ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار پائے۔

اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر عمران خان نے کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ ’’آخری وقت پر کتنے ووٹ این اے 122 سے باہر نکالے گئے جس کے بعد ہم الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں گے اور مسلم لیگ (ن) کے ان دھاندلی کے ہتھکنڈوں سے نمٹیں گے جن کے لیے ہم پھر تیار نہیں تھے۔‘‘

انتخابی نتیجہ آنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ ان کے بہت سے ووٹروں نے شکایت کی ہے کہ ان کا نام ووٹر لسٹ میں موجود نہیں تھا۔

’’بہت سے لوگ ہمارے پاس آئے۔ انہوں نے آ کر ہمیں کہا کہ 2013 کے الیکشن میں ہمارا ووٹ یہیں پر درج تھا مگر اب ہم ووٹ دینے گئے ہیں، اپنا شناختی کارڈ پیش کیا ہے تو پتا چلا ہے کہ ہمارا ووٹ لاہور کسی اور حلقے میں چلا گیا ہے۔‘‘

اگرچہ اتوار کو اوکاڑہ میں بھی قومی اسمبلی اور لاہور میں پنجاب اسمبلی کی ایک ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہوا مگر دونوں جماعتوں کی پوری توجہ این اے 122 پر تھی کیونکہ یہ حلقہ ان چار حلقوں میں سے ایک تھا جن کی تحقیقات کا مطالبہ عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ثابت کرنے کے لیے کیا تھا۔

2013ء میں اس حلقے سے ایاز صادق نے عمران خان کو شکست دی تھی۔

ادھر اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج سے عمران خان کا دھاندلی کا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا ہے۔

’’پہلے عمران خان صاحب کے ان الزامات کو جوڈیشل کمیشن نے غلط ثابت کیا۔ جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کر لیا گیا کہ ان کے الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ اور پھر کل عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے ثابت کیا اور جو نتیجہ آیا اس سے بھی ثابت کیا کہ کوئی پچاس ہزار ووٹ جعلی نہیں تھے۔ اگر پچاس ہزار ووٹ جعلی ہوتے تو کل ایاز صادق کو بیس ہزار ووٹ ملنے چاہیئیں تھے۔‘‘

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل پر سوالات اٹھانے کی بجائے عمران خان کو ملک کو درپیش حقیقی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے توانائی صرف کرنی چاہیئے۔

اگست میں ایک الیکشن ٹربیونل نے این اے 122 کا نتیجہ کالعدم قرار دے دیا تھا اور یہاں ضمنی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے عدالت عظمیٰ میں اپیل کی بجائے دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 147 میں تحریک انصاف کے امیدوار شعیب صدیقی جبکہ این اے 144 میں آزاد امیدوار ریاض الحق جج کامیاب ہوئے۔