پاکستان میں فون ایپ کے ذریعے ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی بین الاقوامی کمپنی 'کریم' نے رواں ماہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات سے پہلے متنازع مارکیٹنگ مہم چلانے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہونے والی سخت تنقید کے بعد اپنے صارفین سے معذرت کر لی ہے۔
'کریم' نے حال ہی میں 25 جولائی کے انتخاب کے دن ووٹروں کو ان کی متعلقہ پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے نئے پرومو کوڈ جاری کیے تھے۔
ان کوڈز پر 'کریم' کو استعمال کرنے والے اور بعض دیگر افراد نے تحفظات اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئندہ انتخابات سے پہلے رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم بعض لوگ سوشل میڈیا پر اس مہم کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
'کریم' کی انتظامیہ کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے ایک بیان میں صارفین کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "کریم سیاسی طور پر غیر جانب دار ہے اور پاکستان میں انتخابات سے متعلق ان کے ٹیگ لائن میں تمام مقبول سیاسی نعروں کو شامل کیا گیا تھا۔ ہمارا مقصد صرف ہر ایک کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانا ہے۔"
اپنی مارکیٹینگ مہم کے ایک اقدام کے طور پر ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ڈیموکریسی کے ذریعے کریم نے ٹیگ لائن کے طور پر متعدد پرمو کوڈ جاری کیے تھے جو بظاہر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف اور تحریکِ انصاف کی حمایت میں تھے۔
'کریم' نے یہ پروموز 'مجھے کیوں نکالا'، 'دیکھو دیکھو کون آیا، کیپٹن آیا، کیپٹن آیا'، 'کریم تیر ے جان نثار، بے شمار بے شمار' اور 'میرے عزیز ہم وطنو' جیسے نعروں کی صورت میں جاری کیے تھے۔
'کریم' کا مؤقف ہے کہ ان پروموز کا مقصد عام انتخابات سے پہلے ووٹروں کو اپنے ووٹ کو استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
تاہم سماجی میڈیا پر ان پروموز کو متنازع قرار دیتے ہوئے انہیں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
کئی افراد نے سوشل میڈیا پر 'کریم' کی اس مہم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانا کریم کا کام نہیں ہے اور کسی قسم کی سیاسی مہم شروع کرنے کے بجائے تجارتی ادارہ ہونے کے ناتے ان کے لیے کاروباری اخلاقیات کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
کریم ٹیکسی سروس کے متنازع مہم کا معاملہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا کے صارفین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور سیاسی مبصرین کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
بعض حلقوں کا مطالبہ ہے کہ اس خدشے کے تدارک کے لیے پاکستان الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو پہلے سے پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
رواں ہفتے ہی سماجی میڈیا کے معروف پلیٹ فارم فیس بک کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی انتخابی عمل میں اپنے پلیٹ فارم کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کے فیس بک پیجز کی سکیورٹی کو موثر بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر اقدامات کر رہا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے کسی بھی قسم کے غلط استعمال کو روکنے کے حکومت نے کئی انتظامی اور قانونی اقدامات کیے ہیں۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود پاکستان کے ووٹرز کی رائے پر غیر قانونی طریقے سے اثر انداز ہونے کی کوششوں کو روکنا الیکشن کمیشن کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔