پاکستان میں چھٹی مردم شماری کے پہلے مرحلے کا آغاز منگل سے ہورہا ہے جس میں سرکاری اہلکاروں پر مشتمل عملے کی جانب سے مکانات کا اندراج کیا جائے گا۔
وفاقی محکمہ شماریات کے مطابق مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 5 تا 19 اپریل ملک بھر میں مکانات کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا جس کے بعد رواں سال اگست اور ستمبر کے مہینوں میں مردم و خانہ شماری کی جائے گی۔
ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ملک کو 1 لاکھ 46 ہزار سے زائد سینسس بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر بلاک میں 200 سے 250 کے لگ بھگ رہائشی مکانات رکھے گئے ہیں۔
ملک میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کیلئے ایک لاکھ سے زائد افراد کا عملہ خدمات انجام دے گا۔ پہلے مرحلے کے دوران عملے کے افراد ملک بھر کے رہائشی مکانات کا فہرستوں میں اندراج کریں گے جس کے بعد اگست سے شروع ہونے والے مردم و خانہ شماری کے مرحلے کے دوران شماریاتی عملہ ملک کے تمام علاقوں میں گھر گھر جا کر رہائشی افراد اور ان کی طرزِ زندگی سے متعلق معلومات اکٹھی کرے گا۔
وفاقی سیکریٹری شماریات آصف باجوہ کے مطابق مردم و خانہ شماری کے دوران چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت، وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی و شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی ہر شہری کو شمار کیا جائے گا۔ ان کے بقول مردم شماری کے دوران ملک میں موجود سفارتکاروں اور ان کے اہلِ خانہ کے علاوہ غیر ملکیوں کی تفصیلات بھی اکٹھی کی جائیں گی۔
یہ پاکستان کی چھٹی مردم شماری ہے۔ ملکی قانون کی رو سے ملک میں ہر 10 سال بعد مردم شماری کا انعقاد ہونا چاہیے۔
قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی تھی جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ دوسری مردم شماری کا انعقاد 1961ء میں ہوا تھا جس میں ملک کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی۔
تیسری مردم شماری کا انعقاد1971ء میں ہونا تھا تاہم مشرقی پاکستان کے محاذ پر بھارت کے ساتھ جنگی صورتِ حال کے باعث مردم شماری 1972ء میں کی گئی جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی۔
1981ء کی چوتھی مردم شماری کے تحت پاکستان کی آبادی 8 کروڑ 42 لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ ملکی سیاسی صورتِ حال کے باعث پانچویں مردم شماری کا انعقاد 7 سال کے تعطل کے بعد 1998ء میں ہوا جس کے مطابق ملک کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ ریکارڈ کی گئی۔
1998ء کی مردم شماری کے تحت پنجاب کی آبادی 7 کروڑ 36 لاکھ، سندھ کی 3 کروڑ 4 لاکھ، خیبر پختونخواہ کی 1 کروڑ 77 لاکھ اوربلوچستان کی آبادی65 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔
پانچویں مردم شماری کے تحت ملک کی آبادی میں 52 فیصد مرد جبکہ 48 فیصد خواتین ہیں جبکہ آبادی کا 32 فیصد شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ ملک میں 15 سال سے کم عمر افراد کی تعداد کل آبادی کا 43 فیصد ہے جبکہ 43 فیصد افراد خواندہ ہیں۔
1998ء کی مردم شماری کے تحت ملک کی ساڑھے 19 فی صد سے زائد آبادی بیروزگار ہے۔
ملک میں چھٹی مردم شماری کا انعقاد 2008ء میں ہونا تھا تاہم ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کے باعث اس کا انعقاد 2010ء کے بعد تک منسوخ کردیا گیا تھا۔