معاشی اور تجارتی امور کے ماہرین ازبکستان سے افغانستان کے راستے پہلے تجارتی قافلے کی پاکستان آمد کو ''ایک نیا آغاز'' قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان، افغانستان اور بطور مجموعی خطے کے معاشی مستقبل کے لئے ''نیک فال'' قرار دے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، پاکستان کے ایک سابق مشیر خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ جب 'چین پاکستان اکنامک کوریڈور' بنا تھا تو ہر چند کہ یہ دو طرفہ معاہدہ ہے لیکن اسی وقت سے دونوں جانب کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان کے حالات ٹھیک ہوں گے اور وہاں امن قائم ہو گا تو اس کوریڈور کو وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔
انہوں نے وسطی اور جنوبی ایشیائی ملکوں میں متعدد معاشی اور تجارتی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام معاہدوں کے درمیان علاقائی رابطوں اور خطے کے ملکوں کے ان معاہدوں سے استفادے کے لئے افغانستان میں حالات کا بہتر ہونا بہت ضروری تھا، جو، بقول ان کے، بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق کا کہنا تھا کہ آگے چل کر ایران اور ترکی بھی ان معاہدوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تجارت اپنے ابتدائی بلکہ تجرباتی مراحل میں ہے۔ لیکن مستقبل کے امکانات بہت روشن ہیں۔ اور افغانستان چونکہ اس ساری تجارت کے لئے ایک گیٹ وے ہے، اس لئے اسے بھی معاشی طور پر بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔ کسی ملک کی معاشی بہتری اس ملک میں امن کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، چنانچہ افغانستان میں بھی اس سے امن و استحکام قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ''وسط ایشیا میں توانائی کے وسائل ان ملکوں کی ضرورت سے بہت زیادہ ہیں، جب کہ جنوبی ایشیا میں توانائی کے وسائل ان کی ضرورت سے بہت کم ہیں۔ اس طرح، یہ خطہ توانائی کی ایک بڑی قدرتی منڈی بن سکتا ہے''۔
پاکستان-افغان چیمبر آف کامرس کے سربراہ، زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''ازبکستان سے پہلے تجارتی قافلے کی پاکستان آمد انتہائی خوش کن، خوشگوار حیرت کا باعث اور ایک پرانے خواب کی تعبیر کا آغاز ہے''۔
انہوں نے کہا کہ پہلے افغانستان میں وار لارڈز کی بالا دستی، بد امنی اور جنگ اس تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اور وسطی ایشیائی ملکوں سے تجارت بہت مہنگی پڑتی تھی۔ لیکن اب حالات بتدریج تبدیل ہو رہے ہیں۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر افغانستان کے حالات مستحکم رہے اور تجارت پورے طریقے سے شروع ہو گئی تو سب سے زیادہ فائدہ افغانستان کو ہی پہنچے گا، کیونکہ وہ اس تجارت کی مرکزی گزرگاہ ہو گا۔
زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ اصل ہدف وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے خشکی کے راستے یورپ تک پہنچنا ہونا چاہئے، کیونکہ اب بحری ذریعوں سے سامان تجارت بیھجنے اور منگوانے کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اور اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے، جب کہ خشکی کے راستے مال تجارت کی آمد و رفت سستی بھی پڑے گی اور اس میں وقت بھی کم لگے گا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ CIS ملکوں کی مجموعی قومی آمدنی 400 ارب ڈالر ہے، جس خطے سے تجارت پاکستان کے لئے انتہائی منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے سی پیک کو بھی بڑھاوا ملے گا۔