ماروی میمن کے متعارف کرائے گئے اس قانونی مسودے میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال متعین کرنے کے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
اسلام آباد —
کم عمر بچوں کی شادیوں سے متعلق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قانون ساز کے ترمیمی بل نے پارلیمان اور اس کے باہر بھی مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی ہے۔
اسلام کی روشنی میں زندگی کے مختلف امور پر آرا دینے والے ملک کے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور چند دیگر ممبران نے کم عمری کی شادی کے
مجوزہ بل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی کے منافی قرار دے دیا ہے۔
حمکران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قانون ساز ماروی میمن کے متعارف کرائے گئے اس قانونی مسودے میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے لیے سزا بڑھا کر دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ تجویز کی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علما اسلام (ف) کے اراکین کی شدید مخالفت کے بعد اس مسودے کو غور و خوص کے لیے قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا۔
ماروی میمن کا بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بل خواتین کے حقوق اور صحت کے لیے ’’انتہائی اہمیت‘‘ کا حامل ہے۔
’’ہم خوش ہیں یہ بل کمیٹی میں گیا ہے جہاں آپ کو دونوں طرف کے دلائل سننے کو ملیں گے۔ ہماری طرف سے بھی اسلامک اسکالرز آئیں گے۔ ہم مسلمان دنیا سے متعلق مکمل معلومات پیش کریں گے کہ انہوں نے اس مسئلے سے کیسے نمٹا۔‘‘
گزشتہ ماہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے شادی کے لیے کم سے کم عمر کا تعین کرنے سے متعلق قوانین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بالغ ہونے کے بعد کسی بھی وقت لڑکا یا لڑکی شادی کے بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔
کونسل نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مذہبِ اسلام کے تحت دوسری شادی کے لیے مرد کو اپنی پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات کا ان تمام معاملات پر کہنا تھا۔
’’پاکستان کن مشکلات میں ہے وہ یاد نہیں ہے۔ مسجدیں برباد اور سجدہ کرنے والے لوگ ذبح ہو رہے ہیں وہ یاد نہیں ہے۔ انہیں صرف چھ سال کی بچی کی شادی یاد ہے اور اس وقت ان کا اس مسئلے کو چھیڑنا یہ بھی کوئی اسلام کی خدمت نہیں۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ماروی میمن کے مجوزہ قانون کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔
’’اُنھیں (مذہبی حلقوں) کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کو بھی حرام قرار دینا چاہیئے۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر طاہر اشرفی کا بھی کہنا تھا کہ کونسل دہشت گردی اور شدت پسندی کے امور پر رائے دینے سے اجتناب کرتی ہے۔
’’میں نے اس متعلق تجاویز پیش کی تھیں مگر ہماری کونسل کا بیمار ذہن رکھنے والا اسٹاف آج بھی حالات کے تقاضوں کے مطابق نہیں چلنا چاہتا، اور ان تجویز کو ایجنڈا پر نہیں لاتے۔‘‘
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے حالیہ ملاقات میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرتے ہوئے بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں کی روشنی میں اس کی تشکیل نو کی تجویز دی تھی۔
اسلام کی روشنی میں زندگی کے مختلف امور پر آرا دینے والے ملک کے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور چند دیگر ممبران نے کم عمری کی شادی کے
مجوزہ بل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی کے منافی قرار دے دیا ہے۔
حمکران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قانون ساز ماروی میمن کے متعارف کرائے گئے اس قانونی مسودے میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے لیے سزا بڑھا کر دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ تجویز کی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علما اسلام (ف) کے اراکین کی شدید مخالفت کے بعد اس مسودے کو غور و خوص کے لیے قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا۔
ماروی میمن کا بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بل خواتین کے حقوق اور صحت کے لیے ’’انتہائی اہمیت‘‘ کا حامل ہے۔
’’ہم خوش ہیں یہ بل کمیٹی میں گیا ہے جہاں آپ کو دونوں طرف کے دلائل سننے کو ملیں گے۔ ہماری طرف سے بھی اسلامک اسکالرز آئیں گے۔ ہم مسلمان دنیا سے متعلق مکمل معلومات پیش کریں گے کہ انہوں نے اس مسئلے سے کیسے نمٹا۔‘‘
گزشتہ ماہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے شادی کے لیے کم سے کم عمر کا تعین کرنے سے متعلق قوانین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بالغ ہونے کے بعد کسی بھی وقت لڑکا یا لڑکی شادی کے بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔
کونسل نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مذہبِ اسلام کے تحت دوسری شادی کے لیے مرد کو اپنی پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات کا ان تمام معاملات پر کہنا تھا۔
’’پاکستان کن مشکلات میں ہے وہ یاد نہیں ہے۔ مسجدیں برباد اور سجدہ کرنے والے لوگ ذبح ہو رہے ہیں وہ یاد نہیں ہے۔ انہیں صرف چھ سال کی بچی کی شادی یاد ہے اور اس وقت ان کا اس مسئلے کو چھیڑنا یہ بھی کوئی اسلام کی خدمت نہیں۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ماروی میمن کے مجوزہ قانون کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔
’’اُنھیں (مذہبی حلقوں) کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کو بھی حرام قرار دینا چاہیئے۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر طاہر اشرفی کا بھی کہنا تھا کہ کونسل دہشت گردی اور شدت پسندی کے امور پر رائے دینے سے اجتناب کرتی ہے۔
’’میں نے اس متعلق تجاویز پیش کی تھیں مگر ہماری کونسل کا بیمار ذہن رکھنے والا اسٹاف آج بھی حالات کے تقاضوں کے مطابق نہیں چلنا چاہتا، اور ان تجویز کو ایجنڈا پر نہیں لاتے۔‘‘
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے حالیہ ملاقات میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرتے ہوئے بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں کی روشنی میں اس کی تشکیل نو کی تجویز دی تھی۔