اسلام آباد —
پاکستان میں حقوقِ نسواں کی غیر سرکاری تنظیموں نے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی بلند شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس رجحان میں بتدریج کمی کے لیے قانون سازی، موثر انتظامی اقدامات اور عوامی حلقوں میں آگاہی مہم پر زور دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بلوغت کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کی مجموعی تعداد میں سے نصف چھ ممالک میں موجود ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان میں حقوقِ نسواں سے متعلق غیر سرکاری تنظیموں بشمول ’شرکت گاہ‘ملک بھر خصوصاً دیہی اور دور افتادہ علاقوں میں بلوغت کی عمر سے قبل لڑکیوں کی شادی کی شرح کو تشویش ناک حد تک بلند قرار دے رہے ہیں۔
شرکت گاہ کی ڈائریکٹر فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنی تنظیم کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 50 فیصد خواتین کی شادی 19 سال کی عمر تک ہو چکی ہوتی ہے.
’’تیرہ (13) فیصد لڑکیوں کی شادی 15 سال کی عمر تک ہو گئی ہوتی ہے ... پھر جو پہلا بچہ ہوتا ہے وہ چھوٹی عمر میں ہوتا ہے، مثال کے طور پر نو فیصد لڑکیاں 15 سے 19 سال کی عمر میں ماں بن چکی ہوتی ہیں۔‘‘
فوزیہ وقار نے بتایا کہ ملک میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی ایک وجہ کم عمری میں شادی بھی ہے، اور اس مرحلے پر ہونے والی اموات میں بڑی شرح 20 سال سے کم عمر خواتین کی ہوتی ہے۔
’’کم عمری میں شادی کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں عورتوں پر تشدد کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، دوسرا صحت پر اس طرح اثر پڑتا ہے کہ بچوں کا جسم تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاً پیدا ہونے والے بچے کا وزن بہت کم ہوتا ہے، پھر ذہنی صحت پر اثر پڑتا ہے ... ان سب عوامل کو دیھکنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ان کا براہ راست تعلق کم عمری میں شادی سے ہے۔‘‘
فوزیہ وقار کا کہنا تھا کہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی عموماً منقطع ہو جاتا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیرِ برائے سماجی بہبود ذکیہ شاہ نواز نے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی بلند شرح کی سنگینی سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس رجحان میں کمی کا اہم ترین حل لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی ہے۔
’’تمام بچیوں، خاص طور پر جو دیہات میں رہائش پذیر ہیں، اُن کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔ جب بچیاں پڑھائی کا سلسلہ شروع کریں گی تو شادی کا وقت خود با خود 18 سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا ... تو اس (مسئلے) کا جو بنیادی حل ہے وہ تعلیم ہے۔‘‘
ذکیہ شاہ نواز کا کہنا تھا کہ کم عمری میں شادی کی حوصلہ شکنی کے لیے انتظامی اقدامات بھی ناگزیر ہیں، جن میں بچوں کی درست تاریخ پیدائش کا اندراج نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بلوغت کی قانونی عمر 18 برس ہے، تاہم مروجہ قوانین کے تحت شادی کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر 16 سال مقرر ہے۔
حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں کم عمری میں شادی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جو تجاویز پیش کرتی ہیں اُن میں اس حد کو 18 برس تک بڑھانا، درست تاریخ پیدائش کے انداج کو یقینی بنانا اور اُن فرسودہ قبائلی روایات کا خاتمہ ہے جن میں لڑکیوں اور خواتین کو فریقین کے مابین صلح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ اور پنجاب میں اس حوالے سے مجوزہ قانون سازی کا عمل جاری ہے۔
واضح رہے کہ کم عمری میں شادی کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بھی بنا ہوا ہے اور آبادی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے کی حال ہی میں جاری کی گئی سالانہ رپورٹ کا عنوان بھی ’’کم سن مائیں‘‘ ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بلوغت کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کی مجموعی تعداد میں سے نصف چھ ممالک میں موجود ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان میں حقوقِ نسواں سے متعلق غیر سرکاری تنظیموں بشمول ’شرکت گاہ‘ملک بھر خصوصاً دیہی اور دور افتادہ علاقوں میں بلوغت کی عمر سے قبل لڑکیوں کی شادی کی شرح کو تشویش ناک حد تک بلند قرار دے رہے ہیں۔
شرکت گاہ کی ڈائریکٹر فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنی تنظیم کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 50 فیصد خواتین کی شادی 19 سال کی عمر تک ہو چکی ہوتی ہے.
’’تیرہ (13) فیصد لڑکیوں کی شادی 15 سال کی عمر تک ہو گئی ہوتی ہے ... پھر جو پہلا بچہ ہوتا ہے وہ چھوٹی عمر میں ہوتا ہے، مثال کے طور پر نو فیصد لڑکیاں 15 سے 19 سال کی عمر میں ماں بن چکی ہوتی ہیں۔‘‘
فوزیہ وقار نے بتایا کہ ملک میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی ایک وجہ کم عمری میں شادی بھی ہے، اور اس مرحلے پر ہونے والی اموات میں بڑی شرح 20 سال سے کم عمر خواتین کی ہوتی ہے۔
’’کم عمری میں شادی کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں عورتوں پر تشدد کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، دوسرا صحت پر اس طرح اثر پڑتا ہے کہ بچوں کا جسم تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاً پیدا ہونے والے بچے کا وزن بہت کم ہوتا ہے، پھر ذہنی صحت پر اثر پڑتا ہے ... ان سب عوامل کو دیھکنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ان کا براہ راست تعلق کم عمری میں شادی سے ہے۔‘‘
فوزیہ وقار کا کہنا تھا کہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی عموماً منقطع ہو جاتا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیرِ برائے سماجی بہبود ذکیہ شاہ نواز نے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی بلند شرح کی سنگینی سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس رجحان میں کمی کا اہم ترین حل لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی ہے۔
’’تمام بچیوں، خاص طور پر جو دیہات میں رہائش پذیر ہیں، اُن کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔ جب بچیاں پڑھائی کا سلسلہ شروع کریں گی تو شادی کا وقت خود با خود 18 سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا ... تو اس (مسئلے) کا جو بنیادی حل ہے وہ تعلیم ہے۔‘‘
ذکیہ شاہ نواز کا کہنا تھا کہ کم عمری میں شادی کی حوصلہ شکنی کے لیے انتظامی اقدامات بھی ناگزیر ہیں، جن میں بچوں کی درست تاریخ پیدائش کا اندراج نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بلوغت کی قانونی عمر 18 برس ہے، تاہم مروجہ قوانین کے تحت شادی کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر 16 سال مقرر ہے۔
حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں کم عمری میں شادی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جو تجاویز پیش کرتی ہیں اُن میں اس حد کو 18 برس تک بڑھانا، درست تاریخ پیدائش کے انداج کو یقینی بنانا اور اُن فرسودہ قبائلی روایات کا خاتمہ ہے جن میں لڑکیوں اور خواتین کو فریقین کے مابین صلح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ اور پنجاب میں اس حوالے سے مجوزہ قانون سازی کا عمل جاری ہے۔
واضح رہے کہ کم عمری میں شادی کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بھی بنا ہوا ہے اور آبادی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے کی حال ہی میں جاری کی گئی سالانہ رپورٹ کا عنوان بھی ’’کم سن مائیں‘‘ ہے۔