چین نے پاکستا ن کے قرضوں میں اضافوں اور بیرونی ادائیگیوں کےتوازن کے چیلنج کے پیش نظر چین پاکستان اقتصادی راہداری ' سی پیک' کے منصوبوں کے متاثر ہونے کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کو درپیش عارضی مشکلات پر قابو پا لے گا۔
ذرائع ابلاغ میں پاکستان عہدیداروں کے حوالے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان کو قرضوں کے بوجھ میں نمایاں اضافے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا سامنا ہے، جس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ چین پاکستان کو قرضہ فراہم کر سکتا ہے، بصورت دیگر پاکستان کو ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ' آئی ایم ایف ' سے سے رجوع کرنا ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو چین پاکستان راہداری کے بعض منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان خوا چن ینگ نے کہا کہ یہ رپورٹس حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ پاکستان کی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اس بات کی وضاحت ایک بیان کی ذریعے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد، چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبوں کو ثابت قدمی سے آگے بڑھائے گا۔
چینی وزارت خاجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ چین کی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر نظر ہے تاہم حالیہ برسوں میں سی پیک نے پاکستان کے نسبتاً بلند شرح نمو کو برقرار رکھنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ قرضہ ترقی پذیر معیشتوں کے لیے ایک حققیقت ہے اور ان کے بقول پاکستان سے متثنیٰ نہیں ہے۔
حال ہی میں وزیر خزانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو اپنی اقتصادی کی شرح نمو کو بلند سطح پر برقرار رکھنے اور ملک کے سماجی شعبے کی ترقی لیے اپنے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینا ضروری ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل قرضے ملک کی مجموعی پیدوار کے 70 فیصد سے تجاوز کر گئے ہیں اور پاکستان نے قرضوں کو کم کرنے کے ایک پروگرام وضح کر رکھا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر حال ہی میں تجارتی اور معاشی امور سے متعلق غیر سرکاری ادارے پاکستان بزنس اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور غیر ملکی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر کرنے کے لیے اسے ایک بار پھر عالمی مالیاتی فنڈ 'آئی ایم ایف' سے رجوع کرنا پڑے گا۔
بزنس کونسل نے عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے پہلے 100 دنوں کے لیے اقتصادی ڈھانچہ تجویز کرتے ہوئے کہا تھا کہ مختصر مدت کے لیے کئی اقدمات کیے جا سکتے ہیں جن میں دوست ممالک سے قرضے اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم شامل ہیں۔
تاہم ان کے بقول یہ کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشی ڈھانچے میں پائیدار بنیادوں پر اصلاحات کی عمل کو شروع کرنا بھی ضروری ہو گا۔