امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سی آئی اے کو اُس کمپاؤنڈ کا معائنہ کرنے کی اجازت دےدی ہے جہاں ہلاکت سے قبل دہشت گردی کا سرغنہ اسامہ بن لادن رہا کرتا تھا۔
جمعرات کو عہدے داروں نے بتایا کہ تلاشی پر پاکستان کی رضامندی سے ایک ہفتہ قبل سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل موریل اور پاکستانی انٹیلی جنس چیف جنرل احمد شجاع پاشا نے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی ایک ٹیم ایبٹ آباد جائے گی جہاں وہ تین منزلہ عمارت کا معائنہ کرے گی اور فنگر پرنٹس اور دیگر شہادتیں حاصل کرے گی، تاکہ القاعدہ کے دیگر منصوبوں کا کھوج لگایا جاسکے۔
دو مئی کو بن لادن کی ہلاکت پر منتج ہونے والی کارروائی سے قبل امریکی کمانڈوز نے کمپاؤنڈ کی جلدی میں تلاشی لی تھی، تاہم امریکی انٹیلی جنس کے عہدے دار تلاشی کا تفصیلی کام بجا لانے کے خواہشمند تھے۔
اِس سمجھوتے کی خبر سے سب سے پہلے ’ واشنگٹن پوسٹ‘نے دی ، جس کے کئی گھنٹے بعد امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے پاکستان پر زور دیا کہ دہشت گردی کے انسداد کے اپنے عزم کا عملی مظاہرہ کرے۔
ہلری کلنٹن نے پیرس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہمیشہ فیصلہ کُن اقدام نہیں کیا اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان امریکہ کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے قدم اٹھائے۔
وزیرِ خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ توقعات کیا ہیں۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ تناؤ کےباوجود، ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ کوچاہیئے کہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک اور طویل مدتی تعلقات قائم رکھے۔ اُنھوں نے دہشت گردوں کے ساتھ خود اپنی سخت لڑائی جاری رکھنے پر پاکستان کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری نے دنیا کے کسی اور خطے کی بنسبت پاکستان کی سرزمین پر سب سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے، جو بات پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔
اُس وقت سے جب سے امریکی کمانڈوزخفیہ طور پر پاکستان میں داخل ہوئے اور بن لادن کو ہلاک کیا، امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔
بدھ کے روز ایک امریکی فوجی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی درخواست پر امریکی فوج نے پاکستان میں اپنی موجودگی کم کرنے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اِس وقت پاکستان میں 200سے زائد امریکی فوجی اہل کارموجود ہیں جو القاعدہ اور مذہبی شدت پسندوں کے انسداد کے سلسلے میں زیادہ تر تربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔