سی آئی اے کی طرف سے دوران تفتیش تشدد افسوسناک ہے: پاکستان

دفتر خارجہ

دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔

پاکستان نے امریکی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی "سی آئی اے" کی طرف سے مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران روا رکھے جانے والے تشدد پر مبنی سلوک پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے انٹیلی جنس نے رواں ہفتے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ سی آئی اے کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں تحویل میں لیے گئے افراد پر تفتیش کے دوران بعض ایسے طریقے استعمال کیے گئے جو تشدد کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ امریکی اقدار کے خلاف ہیں۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار بریفنگ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے اقتباسات ان کی نظر سے گزرے ہیں اور وہ اس پر ہونے والے ردعمل سے بھی واقف ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

سی آئی اے کی طرف سے زیر تحویل افراد پر تشدد افسوسناک ہے: پاکستان

"ہمیں مختلف جگہوں پر زیر تحویل لوگوں پر سی آئی اے کی طرف سے تشدد پر افسوس ہے۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ ہمارے اس موقف کی توثیق کرتی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔"

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بارے میں شفافیت پر زور دیتا ہے اور ان کے بقول خود امریکی انتظامیہ کی طرف سے اس رویے کو نہ دہرائے جانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

امریکی سینیٹ کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے سی آئی اے پر تنقید کی گئی اور اس تشدد میں ملوث اہلکاروں پر مقدمات چلائے جانے کے مطالبات سامنے آ چکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے مشتبہ ارکان کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود دہشت گردی کے کسی منصوبے کو ناکام بنانے میں مدد نہیں ملی اور خفیہ ایجنسی نے 2001ء سے 2007ء تک چلنے والے اس تفتیشی پروگرام کے بارے میں امریکی قانون سازوں اور عوام کو گمراہ کیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق دفتر کے علاوہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کی طرف سے بھی یہ بیان آ چکا ہے کہ سی آئی اے نے تمام انسانی حقوق کی اقدار کو پامال کیا۔

صدر براک اوباما رپورٹ میں سامنے آنے والے مندرجات کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ یہ دہرائی نہیں جانی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی ملک غلطی کرے تو ضروری ہے کہ اسے تسلیم کر لیا جائے۔