پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ایک بار پھر ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ملکی اور بین الاقوامی سلامتی کی صورتحال کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی شریک ہوئے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اجلاس میں ایک روزہ قبل ہونے والے خودکش حملے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان کی بازی ہارنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا رہا ہے اور اسی تناظر میں شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے جون 2014ء میں "ضرب عضب" کے عنوان سے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
اس آپریشن کے باعث دہشت گرد واقعات میں تو ماضی کی نسبت نمایاں کمی دیکھی گئی لیکن پھر بھی تشدد کے اکا دکا ہلاکت خیز واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جنہیں حکام فوجی کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔
2014ء کے اواخر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر مہلک ترین دہشت گرد حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل وضع کیا گیا جس کے تحت کے ملک بھر میں دہشت گردوں، ان کے معاونین و حامیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں۔