افغانستان نے پاکستان کا یہ الزام مسترد کر دیا ہے کہ اس کی جانب سے پاکستانی علاقے پر بھاری ہتھاروں سے فائرنگ کی گئی تھی۔ اس سے قبل پاکستان نے کہا تھا کہ بدھ کو سرحد پار سے دہشت گردوں اور افغان بارڈر پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستانی علاقے میں بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی فائرنگ کے الگ، الگ واقعات میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کا ایک اہل کار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ بدھ کو افغان سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے 'بن شاہی' میں افغانستان میں سرگرم دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔
بیان کے مطابق بدھ کی شام ایک اور واقعے میں افغان بارڈر پولیس نے مبینہ طور پر پاکستانی فوج پر فائرنگ کی۔
پاکستان نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعاون اور رابطوں کی کوششوں کے خلاف ہیں۔
دوسری طرف کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے ایک بیان میں پاک افغان سرحد سے متصل علاقے میں پاکستانی فورسز پر متعدد حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ان مبینہ حملوں میں ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں کسی قسم کی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔
تاہم حال ہی میں پاکستان افغانستان سرحد پر فائرنگ کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد اور کابل ایک دوسرے پر ان حملوں میں پہل کرنے کا الزام عائد کرتے رہتے ہیں۔
افغانستان نے فائرنگ کا الزام مسترد کر دیا
دوسری طرف افغانستان نے پاکستان کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا ہے کہ افغان سرحد سے متصل دیر کے 'بن شاہی' کے علاقے پر ہونے والا حملہ سرحد پار سے ہوا ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان خطے میں موجود دہشت گردی کے مبینہ ٹھکانوں کی وجہ سے دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا ہے لیکن افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کسی بھی دہشت گردی گروپ کو پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سر زمین استعمال کرنے کی جازت نہیں دیتا ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق جمعرات کی صبح پاکستان افغان سرحد پر دونوں ملکوں کی سیکیورٹی حکام کی فلیگ میٹنگ ہوئی اور افغان حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے ٹھوس عزم کا اظہار کیا ہے۔
تاہم پاکستان کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کے سیکیورٹی حکام کے درمیان ہونے والے اجلاس کے بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
افغان حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کابل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے مشترکہ ایکشن پلان کو موثر خیال کرتا ہے۔
ایک مقامی شخص نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا ہے کہ دیر سے متصل سرحد پر پاکستانی فوج گزشتہ دو سال سے باڑھ لگانے کا کام کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
باڑھ نصب کرنے کے معاملے پر پاکستانی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان اختلافات سامنے آتے رہے ہیں جو دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح تصادم اور جھڑپوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ سرحد کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑھ کی تنصیب ضروری ہے تاہم افغانستان کی جانب سے سرحد کو ''حل طلب معاملہ'' قرار دیتے ہوئے، ان اقدامات پر اعتراض بھی کیا جاتا رہا ہے جسے پاکستان مسترد کرتا آ رہا ہے۔
پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعات ایک ایسے وقت رونما ہوئے ہیں جب افغان امن عمل کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بعض عناصر افغان امن عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔
عائشہ فاروقی کا کہنا تھا پاکستان نے کئی مواقع پر افغان حکومت سے کہا ہے کہ امن دشمن عناصر افغانستان میں امن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، لہذٰا دونوں ملکوں کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
ان کے بقول دوحہ معاہدے پر عمل درآمد میں جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کو امن عمل سبوتاژ کرنے کا موقع ملے گا۔
افغان امور کے ماہر اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعات تشویش کی بات ہے۔
ان کے بقول اسلام آباد اور کابل کو ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی سطح پر ان معاملات کو حل کرنے ضرورت ہے، بصورت دیگر اس کے افغان امن عمل پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول سرحد پار سے بعض شدت پسند گروپ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
ان کے بقول بعض اوقات ان حملوں کے ردعمل میں پاکستانی فورسز کی کارروائی کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان غلط فہمیاں بھی جنم لیتی رہی ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ ابھی تک امن مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور اگر یہ شروع بھی ہو جاتے ہیں تو ان میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کار رحیم اللہ نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے امن مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں اور اسلام آباد اور کابل کے درمیان بعض معاملات میں جو غط فہمیاں ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مئی 2018 میں طے پانے والے ایکشن پلان برائے 'امن و اتحاد' کے فریم ورک کے تحت اسلام آباد اور کابل مشترکہ سرحد پر درپیش مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ
دریں اثنا پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اور چین نے ایک دوسری کے سزا یافتہ قیدیوں کی منتقلی سے متعلق معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔
ان کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان اس توثیق شدہ معاہدے کی دستاویز کے تبادلے کے بعد دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے سزا یافتہ قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع ہو جائے گا۔
تاہم ترجمان نے یہ واضح نہیں کیا اس معاہدے سے کون سے سزا یافتہ قیدی مستفید ہو سکیں گے اور ان کی تعداد کتنی ہے۔
یاد رہے کہ بعض پاکستانی شہریوں کے خاندان حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ چین میں قید ان کے سزا یافتہ عزیزوں کی رہائی کی لیے کوشش کی جائے یا انہیں اپنی باقی ماندہ قید کی سزا پاکستان میں گزارنے کو موقع دیا جائے۔