پاکستان کی فوجی قیادت امریکہ پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ پاکستان میں تعینات اپنے خفیہ ادارے ’سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی‘ اور اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کی تعداد میں کمی اور افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں طالبان جنگجوؤں کے مشتبہ ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرے۔
یہ انکشاف پاکستان کے بڑے انگریزی روزنامے ’ڈان‘ نے منگل کو شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کیا جس میں اعلیٰ فوجی افسران کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ خود امریکی حکام نے بھی سی آئی اے سے منسلک اہلکاروں کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
پاکستانی فوجی افسران نے معاملے کی حساس نوعیت کے پیش نظر نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا ہے کہ فوجی قیادت نے سکیورٹی فورسز کی تربیت میں مصروف امریکی اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کی تعداد میں بھی 40 فیصد تک کمی کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان اور امریکہ افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی ہیں۔
امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق پاکستان نے ملک سے لگ بھگ 335 امریکی اہلکاروں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے، جن میں سی آئی اے کے افسران اور نجی عہدے داروں کے علاوہ امریکی اسپیشل فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
سرکاری طور پر پاکستان کے اعلیٰ فوجی حکام ملک میں محدود تعداد میں امریکی فوج کے افسران کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں، جو خفیہ معلومات کے تبادلے، مواصلاتی رابطوں اور نیم فوجی فورس ’فرنٹیئر کور‘ کے اہلکاروں کی تربیت میں مصروف ہیں۔ لیکن کسی بھی مرحلے پر ان اہلکاروں کی صحیح تعداد کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
سول اور فوجی حکام نجی طور پر پاکستان میں سی آئی اے کے سیل کی موجودگی کا بھی اعتراف کرتے ہیں لیکن اس سے منسلک افراد کی تعداد خود حکومت کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ مقامی میڈیا میں وقتاً فوقتاً کی جانے والی قیاس آرایوں میں پاکستان میں تعینات سی آئی اے سے منسلک اہلکاروں کی تعداد کئی سو ہے جن میں سے بیشتر سفارت کاروں اور ماہرین کی حیثیت سے پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔
فروری میں وفاقی وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے پارلیمان میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں تعینات امریکیوں کی مجموعی تعداد 851 ہے، جن میں سے 554 سفارت کار ہیں۔
پاکستانی فوجی قیادت کی جانب سے امریکی اہلکاروں کی تعداد میں کمی کے مطالبے سے متعلق رپورٹس ایک ایسے وقت منظر عام پر آئی ہیں جب پاکستانی خفیہ ادارے ’انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)‘ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے پیر کو امریکہ میں سی آئی اے کے سربراہ لیون پناٹا سے ملاقات کی ہے۔
سی آئی اے کے حکام نے اس بات چیت کو مفید قرار دیتے ہوئے مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ کیے جانے کی تردید کی ہے۔
امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ملاقات میں ”کوئی الٹی میٹم نہیں دیا گیا، اور نا ہی پاکستان میں موجود دسیوں یا سینکڑوں امریکیوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔“
امریکی خفیہ ادارے کے لیے نجی حیثیت میں کام کرنے والے ایک اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں جنوری میں لاہور میں دو پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے تعلقات میں کشیدگی پائی جا رہی ہے۔
آئی ایس آئی کے حکام کے بقول امریکی ہم منصبوں نے اُنھیں ریمنڈ ڈیوس اور پاکستان میں مبینہ طور پر موجود اُس کے دیگر ساتھیوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا تھا۔
تاہم پیر کو لینگلے میں ہونے والی جنرل پاشا اور لیون پناٹا کی ملاقات کے بعد سی آئی اے کے ترجمان جارج لیٹل کا کہنا تھا کہ دونوں خفیہ اداروں کے تعلقات ”اب بھی مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔“