سیکرٹری دفاع کے وکیل افتخار گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے موکل نے اپنے خلاف لگائے گئے الزام کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت عظمٰی کے پہلے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے اُن کے خلاف اس الزام کے تحت مقدمے کی کارروائی مزید بڑھانے کا حکم دیا ہے۔
آصف یاسین ملک نے ملک کی 43 فوجی چھاؤنیوں یعنی کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کروانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا تھا کہ یہ عمل نومبر کے مہینے میں مکمل کیا جائے گا لیکن بعد ازاں حکام کی مشاورت کے بعد اُنھوں نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ اس ضمن میں قانونی اور انتظامی فیصلے ہونا باقی ہیں اس لیے اُن کی جانب سے پہلے بیان کردہ تاریخ پر انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔
اگرچہ آصف یاسین ملک نے اپنے بیان پر عدالت سے غیر مشروط معافی بھی مانگی تاہم سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اُن کو توہین عدالت پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا کہ اُنھوں نے اعلٰی عدلیہ کے سامنے غلط بیانی کی۔
سیکرٹری دفاع کے وکیل افتخار گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے موکل نے اپنے خلاف لگائے گئے الزام کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت عظمٰی کے پہلے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’فیصلے کےخلاف آپ اپیل کر سکتے ہیں تو پہلے سپریم کورٹ کے تین ججز نے حکم دیا تھا اب اس اپیل کو پانچ یا اس سے زیادہ جج سنیں گے ، تو میں نے کہا کہ آپ بینچ بنائیں تو عدالت نے کہا کہ اس کے لیے درخواست دیجیے فی الحال تو ہم فرد جرم عائد کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم قصور وار نہیں ہیں۔ صبح ہم اپیل کے لیے بینچ تشکیل دینے کی درخواست دیں گے۔‘‘
مقدمے کی آئندہ سماعت اب 12 نومبر کو ہو گی۔
سیکرٹری دفاع کا موقف ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کروانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں فیصلہ وزیر اعظم نے کرنا ہے کیوں کہ وزارتِ دفاع کا قلمدان بھی اُن ہی کے پاس ہے۔
اُدھر ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں عدالت عظمٰی نے ایک مرتبہ پھر یہ حکم دیا ہے کہ اس معاملے کو مزید طول نہیں دیا جا سکتا اور یہ انتخابات 27 دسمبر تک کروا دیئے جائیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں سات روز کے اندر عدالت کو آگاہ کرے۔ اس سے قبل پیر کو عدالت عظمٰی نے الیکشن کمیشن کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے بر وقت انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
آصف یاسین ملک نے ملک کی 43 فوجی چھاؤنیوں یعنی کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کروانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا تھا کہ یہ عمل نومبر کے مہینے میں مکمل کیا جائے گا لیکن بعد ازاں حکام کی مشاورت کے بعد اُنھوں نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ اس ضمن میں قانونی اور انتظامی فیصلے ہونا باقی ہیں اس لیے اُن کی جانب سے پہلے بیان کردہ تاریخ پر انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔
اگرچہ آصف یاسین ملک نے اپنے بیان پر عدالت سے غیر مشروط معافی بھی مانگی تاہم سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اُن کو توہین عدالت پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا کہ اُنھوں نے اعلٰی عدلیہ کے سامنے غلط بیانی کی۔
سیکرٹری دفاع کے وکیل افتخار گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے موکل نے اپنے خلاف لگائے گئے الزام کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت عظمٰی کے پہلے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’فیصلے کےخلاف آپ اپیل کر سکتے ہیں تو پہلے سپریم کورٹ کے تین ججز نے حکم دیا تھا اب اس اپیل کو پانچ یا اس سے زیادہ جج سنیں گے ، تو میں نے کہا کہ آپ بینچ بنائیں تو عدالت نے کہا کہ اس کے لیے درخواست دیجیے فی الحال تو ہم فرد جرم عائد کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم قصور وار نہیں ہیں۔ صبح ہم اپیل کے لیے بینچ تشکیل دینے کی درخواست دیں گے۔‘‘
مقدمے کی آئندہ سماعت اب 12 نومبر کو ہو گی۔
سیکرٹری دفاع کا موقف ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کروانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں فیصلہ وزیر اعظم نے کرنا ہے کیوں کہ وزارتِ دفاع کا قلمدان بھی اُن ہی کے پاس ہے۔
اُدھر ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں عدالت عظمٰی نے ایک مرتبہ پھر یہ حکم دیا ہے کہ اس معاملے کو مزید طول نہیں دیا جا سکتا اور یہ انتخابات 27 دسمبر تک کروا دیئے جائیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں سات روز کے اندر عدالت کو آگاہ کرے۔ اس سے قبل پیر کو عدالت عظمٰی نے الیکشن کمیشن کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے بر وقت انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔