پولیس نے عدالت کو بتایا کہ بچے کا نام نادانستہ طور پر درج ہوگیا تھا جس پر عدالت نے بچے کا نام مقدمے سے خارج کردیا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں پولیس نے قاتلانہ حملہ کرنےکی کوشش اور کار سرکار میں مداخلت کے ایک مقدمے میں سے نو ماہ کے بچے کا نام خارج کر دیا ہے۔
لاہور میں نو ماہ کا ملزم بچہ اس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا جب وہ دودھ کی بوتل منہ کو لگائے اپنے بزرگ کی گود میں بیٹھا ایک ماتحت عدالت میں پیش ہوا۔
لاہور کے علاقے مسلم ٹاؤن میں محکمہ سوئی گیس کی طرف سے کی گئی کارروائی کے دوران علاقہ مکینوں کی محکمے اور پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ مبینہ تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا جس کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے میں پولیس نے نو ماہ کے بچے محمد موسیٰ کو بھی نامزد کر دیا تھا۔
اس خبر کا وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا جب کہ مقدمہ درج کرنے والے اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا گیا۔
دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچے کو دیگر ملزمان کے ساتھ جب عدالت میں ضمانت کے لیے پیش کیا گیا تو جج نے بچے کی نامزدگی پر کوئی ایکشن لیے بغیر مقدمے کی آئندہ سماعت 12 اپریل تک ملتوی کر دی تھی۔
تاہم ہفتہ کو جب محمد موسی اپنے بڑوں کے ساتھ عدالت میں پیشی کے لیے آیا تو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ بچے کا نام نادانستہ طور پر درج ہوگیا تھا جس پر عدالت نے بچے کا نام مقدمے سے خارج کردیا۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک سماجی کارکن اور قانونی ماہر ضیا احمد اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے رہےہیں جس میں خاص طور پر بچے کسی نہ کسی طرح پولیس کے مبینہ ناروا سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔
" اس بچے کے جو حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے وہ بہت بڑی خلاف ورزی ہے، اس میں بچے کو تکلیف نہیں ہوئی اس کے خاندان کو اور معاشرے کو بھی تکلیف ہوئی تو اس کا ازالہ کون کرے گا۔ اس بچے اور اس کے خاندان کی شہرت کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کا ازالہ کیا ہوگا تو ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ابھی جواب طلب ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے طرز عمل کا احتساب کرنے کےلیے عدالتوں کے علاوہ ایسے فعال اداروں کا ہونا بھی ضروری ہے جہاں ان شکایات کے ازلے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ان کے تدارک کی راہ بھی ہموار ہوسکے۔
لاہور میں نو ماہ کا ملزم بچہ اس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا جب وہ دودھ کی بوتل منہ کو لگائے اپنے بزرگ کی گود میں بیٹھا ایک ماتحت عدالت میں پیش ہوا۔
لاہور کے علاقے مسلم ٹاؤن میں محکمہ سوئی گیس کی طرف سے کی گئی کارروائی کے دوران علاقہ مکینوں کی محکمے اور پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ مبینہ تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا جس کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے میں پولیس نے نو ماہ کے بچے محمد موسیٰ کو بھی نامزد کر دیا تھا۔
اس خبر کا وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا جب کہ مقدمہ درج کرنے والے اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا گیا۔
دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچے کو دیگر ملزمان کے ساتھ جب عدالت میں ضمانت کے لیے پیش کیا گیا تو جج نے بچے کی نامزدگی پر کوئی ایکشن لیے بغیر مقدمے کی آئندہ سماعت 12 اپریل تک ملتوی کر دی تھی۔
تاہم ہفتہ کو جب محمد موسی اپنے بڑوں کے ساتھ عدالت میں پیشی کے لیے آیا تو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ بچے کا نام نادانستہ طور پر درج ہوگیا تھا جس پر عدالت نے بچے کا نام مقدمے سے خارج کردیا۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک سماجی کارکن اور قانونی ماہر ضیا احمد اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے رہےہیں جس میں خاص طور پر بچے کسی نہ کسی طرح پولیس کے مبینہ ناروا سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔
" اس بچے کے جو حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے وہ بہت بڑی خلاف ورزی ہے، اس میں بچے کو تکلیف نہیں ہوئی اس کے خاندان کو اور معاشرے کو بھی تکلیف ہوئی تو اس کا ازالہ کون کرے گا۔ اس بچے اور اس کے خاندان کی شہرت کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کا ازالہ کیا ہوگا تو ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ابھی جواب طلب ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے طرز عمل کا احتساب کرنے کےلیے عدالتوں کے علاوہ ایسے فعال اداروں کا ہونا بھی ضروری ہے جہاں ان شکایات کے ازلے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ان کے تدارک کی راہ بھی ہموار ہوسکے۔