حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں واپس لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا جس کے مطابق یہ قیمتیں یکم جون کی سطح پر واپس چلی گئی ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بجٹ منظوری سے قبل جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے تحت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا جانے والا اضافہ واپس لینے کا حکم دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے گزشتہ ہفتے بجٹ میں تجویز کردہ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ تجویز کیا تھا اور پارلیمان سے منظوری سے قبل ہی ایک آرڈیننس کے ذریعے اسے نافذ کر دیا۔
جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کی سماعت شروع کی تھی۔ جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت کو قانونی اور آئینی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔
اٹارنی جنرل کی طرف سے دیے گئے دلائل میں کہا گیا کہ حکومت نے 1931ء کے ایک ایکٹ کے ذریعے یہ آرڈیننس جاری کیا تھا۔ لیکن عدالت نے اس ایکٹ کو آئین کی شق 77 سے متصادم قرار دیتے ہوئے غیر قانونی قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے سی این جی پر اضافی 9 فیصد ٹیکس کو بھی واپس لینے کا حکم دیا۔
ادھر حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں واپس لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔
وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کےنوٹیفیکیشن کے مطابق یہ قیمتیں یکم جون کی سطح پر واپس چلی گئی ہیں۔ اس کے مطابق اب پٹرول 99.77 روپے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 104.60 روپے اور مٹی کا تیل 93.79 روپے فی لیٹر فروخت ہوگا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مرکز میں بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے کسی اقدام کے خلاف عدالت عظمیٰ کا یہ پہلا از خود نوٹس تھا جس پر جمعہ کو فیصلہ سنایا گیا۔
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آرہے ہیں کہ ملک کو درپیش مشکلات کے تناظر میں انھیں بعض غیر مقبول اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان میں ٹیکسوں میں اضافے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ حکومت دو ماہ میں پانچ سو ارب کے گردشی قرضے ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وفاقی حکومت نے گزشتہ ہفتے بجٹ میں تجویز کردہ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ تجویز کیا تھا اور پارلیمان سے منظوری سے قبل ہی ایک آرڈیننس کے ذریعے اسے نافذ کر دیا۔
جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کی سماعت شروع کی تھی۔ جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت کو قانونی اور آئینی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔
اٹارنی جنرل کی طرف سے دیے گئے دلائل میں کہا گیا کہ حکومت نے 1931ء کے ایک ایکٹ کے ذریعے یہ آرڈیننس جاری کیا تھا۔ لیکن عدالت نے اس ایکٹ کو آئین کی شق 77 سے متصادم قرار دیتے ہوئے غیر قانونی قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے سی این جی پر اضافی 9 فیصد ٹیکس کو بھی واپس لینے کا حکم دیا۔
ادھر حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں واپس لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔
وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کےنوٹیفیکیشن کے مطابق یہ قیمتیں یکم جون کی سطح پر واپس چلی گئی ہیں۔ اس کے مطابق اب پٹرول 99.77 روپے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 104.60 روپے اور مٹی کا تیل 93.79 روپے فی لیٹر فروخت ہوگا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مرکز میں بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے کسی اقدام کے خلاف عدالت عظمیٰ کا یہ پہلا از خود نوٹس تھا جس پر جمعہ کو فیصلہ سنایا گیا۔
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آرہے ہیں کہ ملک کو درپیش مشکلات کے تناظر میں انھیں بعض غیر مقبول اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان میں ٹیکسوں میں اضافے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ حکومت دو ماہ میں پانچ سو ارب کے گردشی قرضے ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔