پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر عدالتیں ایک ہائی پروفائل کیس میں ہی کیوں فوری طور پر سماعت کرتی ہیں؟ وہ بھی اختتام ہفتہ یعنی چھٹی کے دن؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر ہفتے کے روز عدالت لگا کر نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں ضمانت دی تاکہ وہ علاج کرا سکیں۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ نے ہفتہ 16 نومبر کو عدالت لگا کر اُنہیں شخصی ضمانت پر باہر جانے کے لیے اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے لیے کہا۔
اس سے قبل وفاقی حکومت میاں نواز شریف کو سات ارب کے ضمانتی بانڈز کے ساتھ ان کے باہر جانے کو مشروط کر رہی تھی۔
عدالتیں، عدالتی اوقات کار کے بعد یا اختتام ہفتہ کیوں اور کس صورت میں لگ سکتی ہیں؟ اس کے لیے باقاعدہ کوئی ضابطہ کار ہے یا مکمل طور پر عدلیہ اور جج صاحبان کا اختیار کہ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں عدالت لگا سکتے ہیں؟ کیا ہائی پروفائل کیسز کے علاوہ عام مقدمات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ کیا میڈیا پر توجہ حاصل کرنے والے افراد یا مقدمات پر جاری مباحثے عدالتوں یا جج صاحبان کو جلد کوئی اقدام لینے پر مجبور کر دیتے ہیں؟ یہ سوالات ہم نے پاکستان، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ماہر قانون دانوں کے سامنے رکھے ہیں، ان کی رائے جانتے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد
’’عام حالات میں سب کو پتا ہونا چاہیے کہ عدالتوں کے اوقات کار کیا ہیں۔ میں جب بیس سال پہلے تک تھا تو پیر سے جمعہ تک آٹھ ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر ڈیڑھ بجے تک مقدمات کی سماعت ہوتی تھی۔ ہفتے کے دن عدالت نہیں لگتی تھی لیکن کچھ جج صاحبان جنہوں نے فیصلہ دینا ہوتا تھا وہ اپنے چیمبر آیا کرتے تھے۔
ناصر اسلم زاہد کے مطابق رات کو کبھی کوئی سماعت نہیں ہوئی یہ سب ہوا میں باتیں ہیں۔ پاکستان میں رات کو عدالتیں نہیں لگتیں۔ ہاں بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمات کی سماعت کا وقت ڈیڑھ بجے ختم ہونے کے باوجود جج صاحبان دیکھتے کہ ملزم بھی ہے، شہادتیں بھی ہیں تو وہ اگلا کیس بھی سن لیتے، اور چار بجے تک عدالت لگا لیتے لیکن ایسا کرنے کے لیے دونوں فریقوں کی رضامندی لینا ہوتی ہے۔ ایک فریق کا وکیل اگر کہے کہ مجھے تو کسی دوسری عدالت یا جگہ پہنچنا ہے تو جج ان کو مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘
جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد سے جب سوال کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اور لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سنیچر کو عدالت لگا کر میاں نواز شریف کی بالترتیب ضمانت اور باہر بھجوانے کا معاملہ دیکھا ہے تو انہوں نے کہا،
’’ ہائی پروفائل کیسز میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ جج کیسا ہی ہو، اس کو دیکھنا پڑتا ہے میڈیا میں آ رہا ہے اور لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ جج نہیں سنتے تو پھر ان کو کرنا پڑتا ہے ہائی پروفائل کیسز میں، لیکن یہ ہونا نہیں چاہیے۔ اور پھر ایسے کیسز میں لوگ دیر دیر تک بیٹھتے ہیں۔‘‘
ظفر علی شاہ، سینئر قانون دان، سابق سینیٹر
’’ ہماری آئینی عدالتوں میں یعنی عدالت عالیہ یا عدالت عظمی میں ہفتے بھر کے مقدمات کا شیڈول پہلے سے جاری ہو جاتا ہے کس دن کس مقدمے کی سماعت ہو گی اور یہ شیڈول پیر سے جمعے تک کا ہوتا ہے۔ ہفتے کو کسی جج صاحب نے کسی مقدمے کا فیصلہ لکھنا ہو تو وہ چیمبر آتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ جج کے پاس، چیف جسٹس کے پاس امتیازی اختیارات نہیں ہیں۔ ہفتے کے دن بھی عدالت لگا سکتے ہیں، وہ کوئی بنچ بنا سکتے ہیں۔ لیکن ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔ جیسے کوئی ایسا مقدمہ ہے جس میں ملکی خودمختاری کا مسئلہ ہے، کوئی ایسی ایمرجنسی ہے جو بالکل واضح طور پر ایک اندھے کو بھی نظر آتی ہے کہ اگر رات کو، شام کو یا چھٹی والے دن، ہفتے کو عدالت نہ لگاتے تو اس کے اثرات کس قدر زیادہ ہوتے ملک کے لیے، ملک کی سیکیورٹی یا سسٹم کے لیے۔ لیکن نارمل حالات میں عدالت ہفتے کے روز یا چھٹی کے اوقات میں کام نہیں کرتی۔‘‘
ظفرعلی شاہ کے مطابق، ہائی پروفائل یعنی بڑے اور معروف مقدمات کی بات قانون میں نہیں ہے۔ قانون میں بھی لکھا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ اور سب شہری ایک جیسے ہیں۔ کہیں ہائی پروفائل کا لفظ نہیں لکھا جو اجازت دیتا ہو کہ جب چاہیں، جہاں چاہیں کرسی رکھ کر عدالت لگا لیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سے بلکہ جو پاکستان کا عام شہری ہے، اس کی دل آزاری ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے میرے حقوق ہی نہیں ہیں۔ وہ ان چیزوں کو پسند کر رہا ہے اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ عدالتیں ذرائع ابلاغ میں کسی شخص یا مقدمے سے متعلق تشہیر سے متاثر نہیں ہوتیں۔
’’ میڈیا نے اپنا کام کرنا ہے۔ اس نے اگر ہائپ پیدا کرنی ہے تو اس کی پروفیشنل ڈیوٹی ہو سکتی ہے۔ ملکی اداروں نے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘
خالد کاہلوں، سینئر قانون دان، سابق ڈسٹرکٹ اٹارنی (ریاست کینٹکی)
’’ امریکہ میں جو معمول ہے، پہلے سے طے ہوتا ہے۔ بزنس آورز کی طرح عدالتوں کے بھی اوقات کار ہیں۔ پیر سے جمعے تک۔ صبح آٹھ سے شام چار بجے تک یا پانچ بجے تک۔ اس کے اندر ججز کو خاصے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ جیسے ٹریفک کورٹس ہیں۔ وہ عام طور پر شام کو ہوتی ہیں۔ لوگوں کو سہولت دینے کے لیے کہ وہ کام سے فارغ ہو کر بھی عدالت آ سکیں۔ اسی طرح ہفتے کو بھی کچھ عدالتیں کام کرتی ہیں تاکہ اگر کوئی بندہ گرفتار ہو جائے تو وہ بجائے اس کے کہ پوار اختتام ہفتہ حوالات رہے، ان عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں کچھ عدالتوں تک ٹیلی فون کے ذریعے بھی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جیسے کسی پولیس آفیسر کو تلاشی کے وارنٹ لینا ہوں۔ وہ جج کو گھر پر کال کر کے، ضروری سوال جواب اور وارنٹ کا متن پڑھ کر سنانے کے بعد سرچ وارنٹس کا اختیار لے سکتا ہے۔ یہ عدالتیں خودمختار ہوتی ہیں اور اپنے قاعدے خود بنا سکتی ہیں۔ مجھے اس میں کوئی غلط بات نہیں لگتی اگر کوئی عدالت چاہیے کہ وہ خصوصی وجہ سے ہفتے یا اتوار کو عدالت لگانا چاہیے۔ اگر مثال کے طور پر عدالت چاہیے کہ اسے یونیورسٹی کے ہال میں سماعت کرنا ہو تو وہ وہاں بھی مقدمہ کی سماعت کر سکتی ہے۔ رومنگ کورٹس یا موبائل کورٹس کا تصور امریکہ میں بہت پرانا ہے۔ ابراہم لنکن جو تھے، جب وکالت کرتے تھے تو دور دراز کے علاقوں میں وہ اور جج صاحبان خود ڈرائیو کر کے جاتے اور عدالت لگاتے تھے۔‘‘
تاہم خالد کاہلوں کے مطابق اس کے لیے ایک طریقہ کار ہونا چاہیے۔
’’یہ ایک ریشنل اور سسٹیمیٹک (مبنی بر عقل اور باقاعدہ ایک نظام کے تحت) طریقے سے ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک مدعا علیہہ (اپنا دفاع کرنے والا ملزم) کو سہولت دینے کے لیے آپ عدالت لگا دیں کیونکہ اس کے پاس پیسے ہیں، یا بڑا سپیشل ہے۔ حالات سپیشل ہونے چاہیں، جو شفاف ہوں اور سب کے لیے برابر اطلاق ہوتا ہو۔‘‘
’’جج کو بھی ثابت کرنا پڑتا ہے، اندرونی طور پر کہ حالات سپیشل تھے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک جج صبح اٹھ کر کہہ دے کہ میں آج عدالت رات کو لگاؤں گا۔ نہیں، ان کو رولز پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ باقاعدہ منظوری لینا پڑتی ہے، استثنی اور اختیارات ہیں لیکن ایسے بھی نہیں کہحدود و قیود نہ ہوں۔‘‘
میاں نواز شریف کی ضمانت اور پھر باہر بھجوانے کی اجازت کی دو مختلف اعلی عدالتوں میں غیر معمولی اوقات میں سماعت کے پس منظر میں خالد کاہلوں کا کہنا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ حالات سپیشل ہوں۔ جیسے کہا جائے کہ ان کے عدالت آنے سے سیکیورٹی کا مسئلہ ہے یا ٹریفک متاثر ہوتی ہے، تو اس ضمن میں جج صاحبان یہ کہہ دیں کہ سماعت اختتام ہفتہ ہو گی۔ لیکن اس کے لیے قابل قبول اور قابل فہم وجہ دینا ہو گی۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہو سکتا ہے مدعا علیہہ کون ہے۔‘‘
قانون دان خالد کاہلوں کے مطابق عدالت کو اس بارے میں حساس ہونا چاہیے کہ کسی ایک با اثر مدعا علیہہ کے لیے ایسے عدالت لگانے سے عوام یہ تاثر نہ لے کہ قانون طاقتور لوگوں کو سہولت دیتا ہے۔‘‘
بیرسٹر امجد ملک، چیئرایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز (مانچسٹر، برطانیہ)
میرے مشاہدے اور تجربے میں ہے کہ برطانیہ میں عدالت کے اوقات کار کے بعد بھی ڈیوٹی ججز ہوتے ہیں۔ ہائیکورٹ میں باقاعدہ ڈیزگنیٹڈ ججز ہوتے ہیں۔ ان کا ٹیلی فون، ان کا ای میل اور ان کا کلاک رات آٹھ بجے کے بعد، طے ہوتا ہے اور ان کا نمائندہ موجود رہتا ہے۔ اگر آپ کو ہنگامی حالت میں کوئی درخواست دینی ہو، کوئی رٹ دائر کرنی ہے یا حبس بے جا کے خلاف درخواست دینا ہو تو بالکل ممکن ہے۔ یہ درخواست ای میل یا فیکس کے ذریعے بھی دی جا سکتی ہے۔ ججز مقدمے کی سماعت سے پہلے حکم امتناعی بھی دیتے ہیں۔ کئی دفعہ وہ وکلا کو ٹیلی فون پر سن لیتے ہیں، زیادہ تر چیزیں فیکس اور ای میل پر لے لیتے ہیں اور پڑھ کر ہدایات جاری کرتے ہیں۔‘'
پاکستان کے تناظر میں یہ سوال بڑا اہم ہے۔ اگر اختیارات کو نیچے منتقل کرنے اور عام آدمی کی شنوائی کے لیے اصلاحات لائی جانی چاہیئں۔ بڑی دیر سے بات ہو رہی ہے اصلاحات کی لیکن ایسا ہو نہیں پا رہا۔ لاء اینڈ جسٹس کمشن کو، پارلیمان کو اور وزارت قانون کو دیکھنا چاہیے کہ عام آدمی مشکل حالات سے گزرتا ہے، اس کی اس انداز سے شنوائی نہیں ہے جیسے ایک ایسے آدمی کی جس کے پاس وسائل ہیں۔ اگر اصلاحات ہوں تو ایسی چیزیں بڑے لیول پر نہیں کرنا پڑیں گی۔ مثلا اگر کوئی بندہ حبس بے جا میں تھانے میں بند ہے تو بالکل عدالتوں کو چوبیس گھنٹے کام کرنا چاہیے۔ ججز کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی فریق کو تھانے بھیج کر صورت حال معلوم کریں اور بیلف کو بجھوایا بھی جاتا ہے۔ اسی طرح کسی شخص کی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ کرنا ہو یا حکومت کو کسی کام سے روکنا ہو تو اس میں یہ چینل کام آتا ہے۔ لیکن پاکستان میں جو جج صاحبان متحرک زیادہ ہیں، وہ یہ کام کرتے ہیں۔ لیکن باقاعدہ نظام فعال نہیں ہے۔ ایسی ریفارمز ہوں کہ ہر آدمی کی عدالت تک رسائی ہو۔ اور ایسے قوانین ہوں جو عام آدمی کی دادرسی کریں۔
بیرسٹر امجد ملک کے مطابق ہائی پروفائل کیسوں میں عدالتوں کے بروئے کار آنے پر جو سوالات اٹھتے ہیں، وہ سیاسی سوالات ہیں۔ اور سیاسی سوالات کو حکومت اور پارلیمان کو ہی دیکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ڈائریکشن کی کمی رہی ہے۔ اور سویلین بالادستی کے لیے ہم نے صحیح طور پر کام نہیں کیا۔ اسی لیے کبھی کبھی کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے کہ ’’ ہو از کالنگ شارٹس؟‘‘ جہاں کبھی ادراک ہو جائے کہ کوئی ایک بھی غلطی جس سے ریاست کا نقصان ہو سکتا ہے تو وہ پھر مداخلت ہوتی ہے اور غلطیاں سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے جہاں عدالتی یا انتظامی حکم ناموں پر وہ پابند سلاسل رہے یا جان سے گئے۔ جیسے ذولفقار علی بھٹو۔ میں اگر نواز شریف کی ضمانت اور باہر علاج کے لیے عدالت سے اجازت پر بات کروں تو میں کہوں گا کہ حکومت کا بورڈ بھی یہ تجویز کرتا ہے کہ ان کی تشخیص یا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے تو ان کو باہر بجھوانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اگر حیل و حجت میں تاخیر ہو جاتی ہے اور نقصان ہو جاتا ہے تو ریاست ایک عرصے تک اس کا خمیازہ بھگتتی رہے گی۔