آزادیِ صحافت کی علمبردار ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم نے پاکستان کوصحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا ہےجہاں اس سال اب تک کم ازکم آٹھ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔
نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2010ء میں دنیا بھر میں مجموعی طور پر 42 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئےاور پاکیستان ان میں سرفہرست ہے۔
تنظیم کے مطابق پاکستان میںصحافیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب ملک میں شدت پسند عناصر کی طرف خودکُش حملوں اور تشدد کے دیگر واقعات میں تیزی آئی ہے۔
رواں ماہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں مقامی انتظامیہ اور طالبان مخالف گروہوں کے جرگے پر یک بعد دیگرے کیے گئے دو خودکُش حملوں میں دو صحافی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ اس سے قبل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں یوم القدس کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوس میں بھی صحافی خودکُش بم حملے کا نشانہ بنے۔
سی پی جے نے کہا ہے کہ رواں سال کام سے متعلق ہلاکتوں کی بڑی وجہ ’قتل‘ رہی لیکن تقریباً 40 فیصد صحافی یا پُر تشدد جھڑپوں کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے یا اُن کی ہلاکت احتجاجی مظاہروں جیسی خطرناک صورتحال کے دوران ہوئی۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 12 ہے۔
اس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ ملک کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے شہر خضدار میں منگل کو پیش آیا جہاں موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے مقامی صحافی محمد خان ساسولی کو اُن کے گھر کے قریب قتل کر دیا۔ اُن کے سر اور سینے پر چار گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
محمد خان ساسولی ”رائل ٹی وی“ اور ”آئی این پی“ نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے تھے اور وہ مقامی پریس کلب کے صدر بھی تھے۔
بلوچستان کئی دہائیوں سے علیحدگی پسند باغیوں کی جانب سے شروع کی گئی پرتشدد تحریک کی لپیٹ میں ہے اور حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آگئی ہے۔
سی پی جے کے سربراہ جول سائمن (Joel Simon) کے مطابق گذشتہ برسوں کی نسبت 2010ء میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن یہ اب بھی ناقابل قبول حد تک زیادہ ہے اور یہ صحافیوں کو درپیش خطرات کی نشان دہی کرتی ہے۔ رواں سال ہلاک ہونے والے صحافیوں کی اکثریت سیاست، بدعنوانی، سماجی اُمور اور جنگ جیسے موضوعات پر کام کررہی تھی۔ سی پی جے کے مطابق گذشتہ برس دنیا بھر میں 71 صحافی ہلاک ہوئے تھے جب کہ 2008ء میں یہ تعداد 41 تھی۔
تنظیم کی جانب سے کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوا ہے کہ صحافیوں کے قتل کے لگ بھگ 90 فیصد واقعات میں ملوث افراد کا سراغ نہیں ملتا جب کہ یہ امر قابل غور ہے کہ متعدد صحافی اپنے قتل سے کئی ہفتوں پہلے اُن کو ملنے والی دھمکیوں کی اطلاع متعلقہ حکام کو فراہم کر دیتے ہیں۔
اس بارے میں رپورٹرز وِد آؤٹ باڈرز کا کہنا ہے کہ 2002ء میں کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پَرل کی ہلاکت کے بعد صحافیوں کے قتل میں ملوث کسی مشتبہ شخص کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
حالیہ برسوں میں دہشت گردی کی لہر اور اس کے باعث صحافیوں کی مشکلات میں اضافے کے پیش نظر ملک میں مختلف تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاہم اُن کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔