پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو نامعلوم مسلح افراد نے لاہور کے علاقے گلبرگ میں اُن کے دفتر کے قریب سے اغوا کر لیا ہے۔
شہباز تاثیر کی بازیابی کے لیے پنجاب حکومت نے بڑے پیمانے پر مہم شروع کردی ہے، اور کچھ افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی گئی تاہم انہیں بعد میں رہا کردیا گیا۔
عینی شاہدین اور پولیس حکام نے بتایا ہے کہ اغوا کاروں نے شہباز تاثیر کی گاڑی کو حسین چوک کے قریب روکنے کے بعد اُنھیں زبردستی اپنی گاڑی میں بیٹھا کر ساتھ لے گئے۔
سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اُن کے اہل خانہ کو حکومت نے سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے تاہم شہباز تاثیر کو جب اغواء کیا گیا تو اُن کے ساتھ کوئی محافظ نہیں تھا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے اُنھیں شہباز تاثیر کی گاڑی سے اُن کے موبائل فون اور دیگر اشیاء ملی ہیں۔
صوبائی دارالحکومت میں رواں ماہ کے دوران اہم شخصیات کے اغوا کی یہ دوسری واردات ہے۔ اس سے قبل 13 اگست کو نامعلوم مسلح افراد کے ایک گروپ نے ترقیاتی اُمور کے امریکی ماہر ڈاکٹر وارن وائنس ٹائن کو ماڈل ٹاؤن میں اُن کی رہائش گاہ سے اغوا کیا تھا اور تاحال اُنھیں بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شہباز تاثیر کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ عہدے داروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مغوی کی بازیابی کے لیے صوبائی حکام کو ہرممکن مدد فراہم کریں۔
ہیومن رائٹس واچ نے شہباز تاثیر کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اغوا سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے جنہیں خطرات لاحق ہیں۔
شہباز تاثیر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اُن کے خاندان کو شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں اور عین ممکن ہے کہ اس واردات میں بھی انہی عناصر کا ہاتھ ہو۔ سلمان تاثیر کو 4 جنوری کو اُن کی حفاظت پر معمور پنجاب پولیس کے ایک اہلکار نے اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
سابق گورنر کے قتل میں زیرحراست ملزم ممتاز قادری کا کہنا ہے کہ اُس نے سلمان تاثیر کو ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کے حق میں بیان دینے پر قتل کیا۔